مرے ویراں نگر میں بھی مرے آقا بہار آئے
ترے در پر اگر پہنچوں تو اس دل کو قرار آئے
درِ اقدس کا یہ اسلوب ہر عالم نے دیکھا ہے
خوشی سے جھومتے لوٹے ہیں جو بھی اشکبار آئے
نہ گبھراؤ نہ شرماؤ کہو ’’اَدْرِکْنِی‘‘ اے آقا
یہ در ایسے سخی کا ہے جسے منگتوں پہ پیار آئے
پناہِ بے کساں ہو اِس لیے ہر ایک مشکل میں
تمہارا نام ہی لب پر سدا بے اختیار آئے
رہا ہر حال میں تیرا کرم سایہ فگن مجھ پر
پریشانی کے عالم زندگی میں تو ہزار آئے
خدا نے کہہ کے ’’جاؤکَ‘‘ تمہارے در پہ بھیجا ہے
کرم ہو زندگی ہم بھی گناہوں میں گزار آئے
تمہاری دید کی ہر دور میں خیرات بٹتی ہے
کوئی نظروں کو پاکیزہ کرے دل کو سنوار آئے
ہے سب ممکن جو تم چاہو کرو منظوریاں ایسی
تیرے دربارِ عالی پر یہ احقر بار بار آئے
وفا کے نام لیوا عشق کے داعی ذرا سن لیں
اسے صدیقؓ کہتے ہیں جو ہر شے اُن پہ وار آئے
حیا آقا کی سیرت کا رہے پیشِ نظر ہر دم
ترے کردار میں بھی اے شکیلؔ ایسا نکھار آئے