مسند و منبر و اکرام خدا حافظ اب

تہمت و طعنہ و دشنام خدا حافظ اب

الوداع ، تجربہ گاہانِ جہاں ، جاتا ہوں

عمر پھر ہو گئی ناکام خدا حافظ اب

دل ترے کھیل تماشے سے بھرا جاتا ہے

ائے مرے عشق کے ہنگام خدا حافظ اب

کرہِ ارض پہ مدفون ہوا چاہتا ہوں

میرے افلاک کے اجرام خدا حافظ اب

میری پہچان کسی طور نہیں ہے ممکن

ائے مری شکل ، مرے نام خدا حافظ اب

اب شکستہ ہے مری خام خدائی کا بھرم

شہرِ تخلیق کے اصنام خدا حافظ اب

میں جو چاہوں بھی تو اب اور نہیں چل سکتا

اس لیے شوقِ سبک گام خدا حافظ اب

تو کہ اوہام کے درجے سے نہیں بڑھ پایا

میرے خود ساختہ الہام خدا حافظ اب

تندیِ موجِ بلاء ، اور زرا دیر ٹھہر

میرے ساحل ، مرے آرام خدا حافظ اب

میرے دینار و درم اب بھی وہی ہیں جو تھے

بڑھ چکے حسن کے اب دام خدا حافظ اب

جس کے شایان کبھی حرف نہیں ملتے تھے

اب اسے دیجیو پیغام خدا حافظ اب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]