مشکل ہوئی اب جینے کی تدبیر شہِ دیں
ہے آپ کے ہاتھوں ہی میں تقدیر شہِ دیں
نفرت ہے عداوت ہے تکبّر ہے حسد ہے
معدوم ہوئی خُلْق کی توقیر شہِ دیں
ہو جائے جو ابرو کا سکوں بار اشارہ
کٹ جائے گی آلام کی زنجیر شہِ دیں
کیوں قتل ہوئے سامنے بچوں کے وہ اپنے
کیا ظلم ہے یہ خون کی تحریر شہِ دیں
اب کون یہاں ظالم و قاتل کو سزا دے
اندھی ہوئی قانون کی تعزیر شہِ دیں
پڑ ھتا ہو ں درود آپ پہ امید یہ لے کر
پا جائے سکوں مجھ سا بھی دل گیر شہِ دیں
ہو سیّدِ ہجویر کے اس دیس پہ رحمت
ہو جائے فنا جبر کی تزویر شہِ دیں
فریاد ہے نوری کے لبوں پر مرے آقا
مومن نہ کوئی ہو کبھی دلگیر شہِ دیں