معدنِ لطف سے ، انعام سے وابستہ ہیں
للہِ الحمد ! ترے نام سے وابستہ ہیں
دیکھ لیں گے سرِ محشر وہ تری شانِ کرم
جو زیاں کار بھی ابہام سے وابستہ ہیں
موجۂ اذن سے کُھلتا ہے چمن زارِ سخن
سلسلے نعت کے الہام سے وابستہ ہیں
ہم پہ لازم ہے ابھی ترکِ خیالِ دیگر
ہم ابھی نعت کے احرام سے وابستہ ہیں
کیا عجب اوجِ عنایت پہ ہیں مداح ترے
خام ہیں اور درِ تام سے وابستہ ہیں
تری نسبت ہے جو تکریم پہ رکھتی ہے بحال
ترے شیدا ہیں جو اکرام سے وابستہ ہیں
بخش دی لمسِ تسلی نے جنہیں ساعتِ خیر
وہ کہاں عرصۂ آلام سے وابتہ ہیں
دید سے کم تو نہیں دید کے احساس کی رَو
یوں بھی ہم اُن کے در و بام سے وابستہ ہیں
اُن پہ یکساں ہے کرم بار عطا کو موسم
جو تری صبح سے اور شام سے وابستہ ہیں
ہے پئے اہلِ یقیں بابِ شفاعت کی کُشاد
کج مقدر ہیں جو اوہام سے وابستہ ہیں
وقفِ مدحت ہی رہے حضرتِ حسان سدا
ہم بھی مقصودؔ اُسی کام سے وابستہ ہیں