ملا نصیب سے مجھ کو جو غم حسین کا ہے
مرے وجود پہ یہ بھی کرم حسین کا ہے
جسے رسول نے سونگھا کبھی لیا بوسہ
وہ جسم پھول صفت محترم حسین کا ہے
لقب ہے شیرِ خدا نام ہے علی جس کا
پدر وہ باب علوم و حکم حسین کا ہے
تمام فرش زمیں ہے حسین کی جاگیر
عرب حسین کا باغ عجم حسین کا ہے
کبھی سوال جو میں نے کیا اجالوں سے
کہا کہ خالق لوح و قلم حسین کا ہے
کسی بھی لشکر باطل سے ہل نہیں سکتا
تجھے خبر نہیں کیا یہ قدم حسین کا ہے
ادھر سے جور و جفا تو اِدھر سے صبر و رضا
بڑا انوکھا جوابِ ستم حسین کا ہے
چراغ رشد و ہدایت ، بہار لطف و عطا
گھرانا سارا خدا کی قسم حسین کا ہے
قریب آ نہیں سکتا کبھی کوئی آسیب
زباں پہ نام اگر دمبدم حسین کا ہے
حسین ہے شہ کون و مکاں کی آنکھ کا نور
ہر اک شرار وجود و عدم حسین کا ہے
شعاعیں نور کی اے نورؔ مجھ سے پھوٹتی ہیں
ہزار شکر مرا دل حرم حسین کا ہے