اردوئے معلیٰ

ملول میں بھی ہوں ، تو بھی ہے اور شاعری بھی

مری شکست ہے جانے شکست کس کس کی

 

بس ایک تو ہی نہیں مہرباں رہا جب سے

تو سن رہا ہوں میں باتیں کرخت کس کس کی

 

مرا حبیب مرے سرو قد کو بانٹتا ہے

صلائے عام ہے ، قامت ہے پست کس کس کی

 

قمار خانہِ وحشت میں تجھ کو بھول گیا

کہ داؤ پر ہے یہاں بود و ہست کس کس کی

 

میں جوئے خون ہی لایا تھا پر سوا میرے

وفا ملی تجھے تیشہ بدست کس کس کی

 

میں آ گیا ہوں پلٹ کر ، کہو مرے زخمو

نہ سن سکا تھا میں ہجرت کے وقت کس کس کی

 

مجھے نہ پوچھ ، یہی دیکھ لے جہاں بھر میں

متاعِ عشق ہوئی لخت لخت کس کس کی

 

میں برق پا جو نہیں رہ سکوں تو تب سوچو

جہانِ کُل سے ہے آگے کی جست کس کس کی

 

اب اس کے بعد عزیزو ، فنا ہے ، سو بولو

وفا چلی تھی کیے بند و بست کس کس کی

 

ہزار خواب تھے اب یاد کچھ نہیں مجھ کو

کہ جان لے کے ٹلا تھا وہ وقت کس کس کی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ