ممدوح ! کرشمہ ہے تری چارہ گری کا

مدّاح کو معلوم ہے سب بے ہُنری کا

اے بادِ صبا ! پھر سے ذرا ذکرِ مدینہ

مدت سے تھا مشتاق تری مژدہ بری کا

صدیوں کی مسافت پہ ہے اِک زائرِ عاجز

سرکار مداوا بھی ہو اس در بہ دری کا

خود جھُومنے لگتے ہیں نکیرین برابر

جب رنگ سا جمتا ہے تری مدح سری کا

وہ شہرِ کرم بار مَیں دیکھ آیا ہُوں جب سے

مداح زمانہ ہے مری دیدہ وری کا

ماتھے پہ سجا رکھا ہے نعلین کا جھُومر

یہ مانعِ آفات ہے ہر بد نظری کا

آنکھوں پہ عیاں ہوتے نہیں دید کے منظر

اِک خواب رُکا رہتا ہے تیری نگری کا

مَیں نعت کا بندہ ہُوں تو بندہ ہُوں مَیں تیرا

دے مجھ کو غُلامی کا شرف عمر بھری کا

مقصود یہ مدحت کا حوالہ ہے معظم

ورنہ تو اِکارت تھا یہ فن خامہ گری کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]