اردوئے معلیٰ

ممدوح ! کرشمہ ہے تری چارہ گری کا

مدّاح کو معلوم ہے سب بے ہُنری کا

 

اے بادِ صبا ! پھر سے ذرا ذکرِ مدینہ

مدت سے تھا مشتاق تری مژدہ بری کا

 

صدیوں کی مسافت پہ ہے اِک زائرِ عاجز

سرکار مداوا بھی ہو اس در بہ دری کا

 

خود جھُومنے لگتے ہیں نکیرین برابر

جب رنگ سا جمتا ہے تری مدح سری کا

 

وہ شہرِ کرم بار مَیں دیکھ آیا ہُوں جب سے

مداح زمانہ ہے مری دیدہ وری کا

 

ماتھے پہ سجا رکھا ہے نعلین کا جھُومر

یہ مانعِ آفات ہے ہر بد نظری کا

 

آنکھوں پہ عیاں ہوتے نہیں دید کے منظر

اِک خواب رُکا رہتا ہے تیری نگری کا

 

مَیں نعت کا بندہ ہُوں تو بندہ ہُوں مَیں تیرا

دے مجھ کو غُلامی کا شرف عمر بھری کا

 

مقصود یہ مدحت کا حوالہ ہے معظم

ورنہ تو اِکارت تھا یہ فن خامہ گری کا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات