اردوئے معلیٰ

منشائے رسالت کا ہُوا جیسے اشارہ

مہتابِ ضیا بار نے دل کر لیا پارہ

 

رہتا ہُوں بہَر طَور ترے دستِ اماں میں

احساس ہے گرداب تو مدحت ہے کنارہ

 

کھِلتے نہیں رنگوں کے مناظر سرِ حیرت

قائم ہے ترے گنبدِ اخضر کا اجارہ

 

میزان میں رکھ کر مری نعتِ شبِ ہجراں

پُورا کیا آقا نے مرا سارا خسارہ

 

یکسر ہیں الگ اُس درِ رحمت کے قرینے

ہر چند کہ ہے جُودِ مکرّر کا نظارہ

 

برسائے گا جب ابرِ کرم وصل کا جھالا

بجھ جائے گا پھر آتشِ فرقت کا شرارہ

 

ملتی ہے ترے گھر سے ہی خیرات کرم کی

ہوتا ہے ترے در پہ ہی ہر درد کا چارہ

 

اُمید رکھیں کس سے، کریں کس سے تمنا

جب تیرے ہی ٹکڑوں پہ ہے، خوب اپنا گزارہ

 

آئے گا ضیا بخش بُلاوا ترے در سے

چمکے گا بڑے ڈھب سے مقدر کا ستارہ

 

تا حشر دِکھائے گا رہِ رُشد و ہدایت

اے ختمِ رُسُل ! تیری رسالت کا منارہ

 

مقصودؔؔ شبِ رحمتِ میلاد کے صدقے

مطروب ہُوا یابسہ، ٹھنڈا ہُوا حارہ

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات