مہرباں مجھ پہ مرا جب کہ خدا ہو جائے
اس کے محبوب کی اک تازہ ثنا ہو جائے
دل اگر اس کے تصور سے جدا ہو جائے
خوف آتا ہے کہ جانے مجھے کیا ہو جائے
قیدِ ہستی سے مرا دل جو رہا ہو جائے
خاک بن کر ترے کوچہ کی ہوا ہو جائے
دن میں رہتا ہے وہ مصروفِ جہادِ حق میں
رات آتے ہی وہ مشغولِ دعا ہو جائے
زلفِ پیچاں کے اسیر اس کے بہت ہیں خرسند
آرزو مند نہیں کوئی رہا ہو جائے
اے مرے ساقی گلفام ترے قرباں میں
ساغرِ کوثر و تسنیم عطا ہو جائے
اس کی انگلی کے اشارے سے ہے مہتاب دو نیم
آنکھ کا ہو تو قیامت ہی بپا ہو جائے
جان پڑتی ہے شفاعت کے تصور سے ترے
دھیان سے حشر کے جب روح فنا ہو جائے
روزِ محشر ہو شفاعت مرے حق میں آقا
کر دے میرا بھی بھلا تیرا بھلا ہو جائے
رونقِ بزم دوبالا ہو یہ دیکھا ہم نے
بزم میں جب بھی نظرؔ نعت سرا ہو جائے