میانِ روزِ جزا بنے گا گواہ کاغذ
بہ فیضِ مدحت دمک اُٹھا ہے سیاہ کاغذ
مَیں نقش کرتا ہُوں اس کے ماتھے پہ مدحِ تازہ
بڑھائے جاتا ہے یوں مری عز و جاہ کاغذ
وہ کاغذی جادہ جس پہ اُن کا ہے نام رخشاں
فلاحِ دارین کی ہے تنہا یہ راہ کاغذ
برائے ارقامِ نعت میں صرف سوچتا ہُوں
نمایاں کرتا ہے حرف کے مہر و ماہ کاغذ
نیازِ خامہ کرم کے پیہم حصار میں ہے
مجھے نوازے گا نعتِ نَو کی پناہ کاغذ
تری عطا سے ، تری ثنا کے چمن کھلے ہیں
حیات تھی ورنہ بے نمو ، بے گیاہ کاغذ
یہی ہے مقصودؔ فردِ مقہور کی تلافی
بچائے گا مجھ کو نعت زا خیرخواہ کاغذ