نظر میں برق سی اِک ثانئے کو لہرائی

چھپا گئے ہو بخوبی مگر شناسائی

عجب ہوا کہ شکستِ یقین کی چادر

ستم ظریف تری اوڑھنی نکل آئی

جگر کے زخم کہاں نشتر نے سینے تھے

بساطِ عشق میں کب تھی مری مسیحائی

ملال ہے کہ محبت کی بارگاہ سے بھی

دلِ تباہ کے حصے میں بے دلی آئی

گری ہے دوشِ تمنا سے پوٹلی دل کی

بکھر گئی ہے مرے گرد میری تنہائی

جنوں گلے سے لگاتا رہا بہر صورت

مگر کمال رہی مرگ میں پزیرائی

ہوئی ہے عمر کہ دل ڈوبتا ہی جاتا ہے

بہت عمیق ہے اس وسوسے کی گہرائی

ادا ہوا ہی نہیں قرض ایک منظر کا

پڑی ہے رہن زمانے سے میری بینائی

وہ ایک بات کہ جو وقت پر کہی نہ گئی

ہزار بار مری شاعری نے دہرائی

طلب کو دیر بہت ہو گئی تبھی ناصر

ہے بے نیاز مسافت سے آبلہ پائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]