نظر کا دھوکہ ہے نام و نمود لا موجود
ترے بغیر نظامِ شہود لا موجود
حضور آپ سے قائم ہے ہستئ معلوم
حضور خود سے تو میرا وجود لا موجود
یہ اب جو تان کے سینہ کھڑا ہے سر پہ مرے
شبِ لقا میں تھا چرخِ کبود لا موجود
کہاں سے لاؤں تناسب میں کوئی حرفِ ثنا
ترے جمال کی حد و حدود لا موجود
فقط عقیدہ نہیں ہے، خُدائی ضابطہ ہے
کوئی نماز بغیرِ درود لا موجود
اسی لیے تو کھڑے ہیں جہاں قطاروں میں
کہ تیرے جیسا کوئی، شاہِ جُود، لا موجود
ہے کائنات ترے اسمِ جانِ کُل کا ظہور
ترے سوا تو یہ سب ہست و بُود لا موجود
حضور اوجِ سخن سے ورا کوئی مدحت
حضور حرف میں کوئی سرود لا موجود
لقائے خاص سے کھینچا گیا خطِ تنسیخ
کہ اِس سے آگے کوئی بھی صعود لا موجود
تجھے خُدا نہیں کہنا، نہیں کہا بخدا
سوائے اس کے تمامی قیود لا موجود
تمھاری یاد سے مہکا ہُوا ہے صحنِ خیال
برائے خاطرِ جاں مُشک و عُود لا موجود
نگاہِ شوق کے پہرے ہیں حرفِ نعت کے گرد
کسی غزل کا یہاں پر ورود لا موجود
ہر ایک صنفِ سخن میں ہے انتہائے سخن
بس ایک نعت ہے جس میں جمود لا موجود
دبے دبے تھے نَعَم کے قبول لہجے میں
ترے حضور کسی میں جحود لا موجود
وجود باقی ہمارا ہے “انت فیھم” سے
وگرنہ ہو گئے عاد و ثمود لا موجود
حضور ! آپ ہی مقصودِ کائنات ہوۓ
بجز تھی آپ کے کُن کی کشود لا موجود