نور کی ڈور سے ہم لعل و گُہر باندھتے ہیں
مصرعِ نعت بہ صد شوق اگر باندھتے ہیں
بر سرِ عرش نہ کیوں شادی رچے، آج کہ آپ
جانبِ قصرِ دنیٰ رختِ سفر باندھتے ہیں
ہے رسد گنبدِ خضریٰ سے شب و روز اُنھیں
روشنی کا جو سماں شمس و قمر باندھتے ہیں
ٹکٹکی آپ کے دربار کی جالی پہ شہا
بہرِ دیدار مرے دیدۂ تر باندھتے ہیں
میم لکھتے ہی عجب کیف سا چھا جاتا ہے
ایسے تحریر کی تمہید اگر باندھتے ہیں
گرچہ عاجز ہیں مگر پھر بھی خیالِ مدحت
سر بہ سر باندھتے ہیں شام و سحر باندھتے ہیں
ہے عجب شانِ عطا حشر میں دستارِ نعم
آپ اپنے ہی گنہ گار کے سر باندھتے ہیں
ہے عطا اُن کی جہانداد ترے جیسے بھی
منظر نعتِ نبی بارِ دگر باندھتے ہیں