نکل رہی ہے آہ پھریہ قلبِ بے قرار سے
ملال ہے کہ دور ہوں حضور کے دیار سے
حضور کے دیار سے میں دور ہوں توکیا ہوا
کہ دل کا سلسلہ تو جڑ چکا ہے اک بہار سے
بہار جس کی رونقیں مدینۃ النبی میں ہیں
ہوائیں اس کی آرہی ہیں ساگروں کے پار سے
ملامتوں کے درمیاں ہے دل بھی اس خیال پر
کہ اب تلک نہ کھِل سکا یہ پھول اُس بہار سے
بہارِ جاوداں مرے نبی کی خاکِ پا میں ہے
حصولِ خاکِ پا کی آرزو ہے، انکسار سے
نصیحتیں یہ کر رہا ہوں روز اپنے آپ کو
کہ پاک رکھ خیال کو بھی شرک کے غبار سے
یہاں بھی ان کا قرب ایک روز مل ہی جائے گا
اگر بچا رہا گناہِ جہل کے شرار سے
یقیں کا بیج ہو تو زندگی ملے شجر کو بھی
وگرنہ پھل کی آس ہی عبث ہے شاخسار سے
دعا کرو کہ ہوش مند قلب بھی نصیب ہو
چمک اُٹھے ہر ایک حرف جذبِ نعت کار سے
میں نعت کار ہوں مجھے مسرتیں نصیب ہیں
کہ دیکھتا ہوں خلدِ قلب دور کے دیار سے
دلوں کا چین صرف پیرویٔ شاہِ دیں میں ہے
عمل کو دو جِلا اسی حسین اعتبار سے
خیال کی طہارتیں ہیں روح کے لیے غذا
کہ زندگی ہے روح و دل کی فکر کے نکھار سے
مدینۃ النبی پہنچ کے شاد ہو سکے گا دل
ابھی ملول ہے کہ اَٹ رہا ہے ہر غبار سے
خیال و فکر و فن کا بھی عمل ہی پر مدار ہے
تو رخشِ فن کی دوڑ ہو عمل کے راہوار سے
علامتِ قبولیت ہر ایک لفظ بن سکے
نہائے حرف حرف رحمتوں کے آبشار سے
نبی ہیں غایت عَوَالِم اور وجہِ زندگی!
نہیں وہ جس کو تم شریک کر رہے ہوپیار سے
یہاں تک آ کے پھر خیال اور سمت پھر گیا
کہ میں زوال میں پھنسا ہوں اپنے ہی شِعار سے
بُھلا کے اُسوۂ نبی میں پستیوں میں گر گیا
میں پستیوں میں گر گیا ہوں منصبِ سُدھار سے
یہ حکم تھا کہ ’’لا تخف‘‘، مگر رہی ڈری ڈری
یہ قوم جس کو پیار تھا کبھی صلیب و دار سے
اثر ہوا نہ قوم پر تموُّجاتِ عصر کا
حصول عبرتوں کا بھی ہوا نہ روزگار سے
امیں بنا کے جس کو رب نے، اقتدار بھی دیا
بُھلا کے دیں، چمٹ گیا وہ صرف اقتدار سے
یہ جستجو کسی طرح عوام ہوں غریب تر
ہوں اہلِ زر تو شاد، ہوں غریب سوگوار سے
زمیں کے غاصبوں سے دوستی ہے شہر یار کی
مگر عجیب بیر ہے غریب کاشتکار سے
جو عدل حکمراں پہ فرضِ عین تھا وہ مٹ گیا
بڑھا ہوا ہے ہر طریق ظلم کا، شمار سے
یہ نعت ’’استغاثہ‘‘ بن گئی تو میں دعا کروں
زوالِ بد نہاد حکمراں کی، کردگار سے
زوال ’’اِس کا‘‘ دیکھنا نصیب ہو ہر ایک کو
نجات مل سکے عوام کو ستم شعار سے
الٰہی اب تو ظالموں کو روزِ بدنصیب ہو
ملیں یہ قصرِ سلطنت سے چل کے صرف دار سے
اگر نصیب میں ہے ان کے خیر رب العالمیں
تو دے ہدایت ان کو جلد روزِ خوش گوار سے
وگرنہ نیک حکمراں سے ان کو جلد ہی بدل
اُتار کر انہیں یہاں کے تختِ اقتدار سے
اگرچہ بے جہت رہا شروع سے خیالِ فن
دعا ہے پائے فکر وفن مرا جِلا بہار سے
یہ عرض ہے حضور ! آپ بھی دعا یہ کیجیے!
کہ ہم نکل سکیں زوالِ دیں کے اِس حصار سے
نشاۃ ثانیہ کا اب طلوع آفتاب ہو!
نکل سکے یہ قوم اس طویل انتظار سے
سیاستِ مدینۃ النبی کا عکس دیکھ لیں
یہ اُمتی بھی تنگ ہیں جو اپنے شہریار سے
محبتیں لٹائیں خیرخواہِ قوم پر سدا
جو ہوں دلوں میں نفرتیں تو ہوں سیاہ کار سے
عزیزؔ اتباعِ شاہِ بحر و بر کا دھیان رکھ
شباہتِ عمل رہے حبیبِ کردگار سے