نگاہِ قہر سے دیکھیں ہیں آج سب مجھ کو
ترے کرم کی ضرورت ہے میرے رب مجھ کو
متاعِ دیں کی حفاظت بھی ہو گئی مشکل
ستا رہے ہیں شیاطین روز و شب مجھ کو
مجھے ہو اُسوۂ خیرالبشر کی بھیک عطا!
خطا تھی میری کہ پہلے نہ تھی طلب مجھ کو
میں جانتا ہوں مکافات ہے عمل کی مرے
ستا رہا ہے زمانہ، نہ بے سبب مجھ کو
مگر مجھے تو ترے فضل پر بھروسہ ہے
عمل پہ ناز رہا ہے کریم! کب مجھ کو
تباہ حال ہے تیرے رسول کی اُمت
نڈھال کرتی ہے یہ آگہی بھی اب مجھ کو
یقیں کی دولتِ بیدار بھی عطا کر دے!
سخن وری کا دیا ہے اگر یہ ڈھب مجھ کو!
خیال و فکر کی دنیا میں اضطراب تو ہے
حروف و صوت کی مل جائے تاب و تب مجھ کو!
میں حق نگار بنوں وہ قلم عطا کر دے!
سخن میں صدق کی خوشبو ہو دے وہ لب مجھ کو
وہی سخن کے لیے رنگ و بو کا ضامن ہو!
ملے جو غیب سے پیرایۂ ادب مجھ کو
الٰہی میری دعاؤں کو روشنی ہو عطا
دعائیں مانگتے رہنے کا آئے ڈھب مجھ کو
قبولیت کی سعادت سے بہرہ ور ہوں عزیزؔ
وہ سارے لفظ جو بخشے گئے ہیں اب مجھ کو