نہ لاتی نرم سماعت ہی تاب، ممکن تھا

ترے سوال کا ورنہ جواب ممکن تھا

تمہی کہو کہ بھلا خآک موندتے آنکھیں

شکستِ خواب یقینی تھی خواب ممکن تھا

نہ شرمسار ہوئے ہیں نہ شرمسار کیا

اگرچہ سود و زیاں کا حساب ممکن تھا

تمہارے بعد بھلا کون سی امان میں تھے

ہمارے سر پہ کوئی بھی عذاب ممکن تھا

اُدھر کسی کا تخیل بھی سانس لیتا تھا

اِدھر وجود بھی خانہ خراب ممکن تھا

ہوا کی سمت میں رکھنے تھے بادبان مگر

یہ اختیار کہاں زیرِ آب ممکن تھا

یہ باد گرد اگر صرف گرد ہو پاتے

اسی زمین میں کھلتے گلاب ممکن تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]