نہ لاتی نرم سماعت ہی تاب، ممکن تھا
ترے سوال کا ورنہ جواب ممکن تھا
تمہی کہو کہ بھلا خآک موندتے آنکھیں
شکستِ خواب یقینی تھی خواب ممکن تھا
نہ شرمسار ہوئے ہیں نہ شرمسار کیا
اگرچہ سود و زیاں کا حساب ممکن تھا
تمہارے بعد بھلا کون سی امان میں تھے
ہمارے سر پہ کوئی بھی عذاب ممکن تھا
اُدھر کسی کا تخیل بھی سانس لیتا تھا
اِدھر وجود بھی خانہ خراب ممکن تھا
ہوا کی سمت میں رکھنے تھے بادبان مگر
یہ اختیار کہاں زیرِ آب ممکن تھا
یہ باد گرد اگر صرف گرد ہو پاتے
اسی زمین میں کھلتے گلاب ممکن تھا