نیلی جھیل کنارے ہے اس بھید بھری کا گاؤں

جس کے خدّو خال میں چمکے ٹھنڈی میٹھی چھاؤں

روپ سروپ سراپا کندن، کیا ماتھا، کیا پاؤں

عشق کی کومل تال پہ ہم تھے کتنے مست مگن

رنگ، بہار، گلاب، پرندے، چاند، شراب، پَوَن

سانولی سُندرتا کی دُھن میں گُم تھے تن من دھن

وقت پھر آگے ایسا آیا، پیچھے پڑ گئے لوگ

آنکھ جھپکتے کھو گیا سب کچھ، باقی رہ گیا سوگ

چاٹ گیا ساری خوشیوں کو ہجر کا ظالم روگ

یاد کی سبز منڈیر پہ چمکیں اس کے نین چراغ

رنگ برنگ لگا ہے دل پر زخموں کا اک باغ

ربط کی ڈور کہاں سے ٹوٹی، ملتا نہیں سراغ

شام ڈھلے جب ہو جاتی ہے دل بستی ویران

سانسیں گم سم، دھڑکن چُپ چُپ اور آنکھیں سنسان

گھور اندھیری رات میں چمکے اس پگلی کا دھیان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]