ٹُوٹے ہُوئے دِلوں کے سہارے حضور ہیں
ہم کو تو اپنی جان سے پیارے حضور ہیں
بے جان میں حیات کے منظر عیاں ہُوئے
فرماتے جس طرف بھی اشارے حضور ہیں
دنیا و آخرت میں ہمیں خوف کیوں رہے
کرنے کو اپنے وارے نیارے حضور ہیں
یا سیدی اغِثنی پکارا ہے جس گھڑی
طوفان میں بھی دیتے کنارے حضور ہیں
جو بھی نہیں حضور کے رب کے نہیں ہیں وہ
اُن کا خدا ہے جن کے ہمارے حضور ہیں
کیا خوب اُن کا اُسوۂ پُر نور واہ وا
ہر قوم کہہ رہی ہے ہمارے حضور ہیں
گر چہ تمہیں ڈرائیں زمانے کی مشکلیں
مرزا نہ رکھنا خوف تمہارے حضور ہیں