اردوئے معلیٰ

پست بے انتہا ہے میرا شعور

زیرِ انوارِ نعت کتنے ہی طور

 

تیری مدحت کے ہر تخیّل میں

روشنی روشنی ہے نور ہی نور

 

جب سے توفیقِ نعت مجھ کو ملی

جسم و جاں ہیں مرے بھی محوِ سرور

 

پردہ پوشی حضور نے کی ہے

پیشِ سرکار جب ہوئے ہیں قصور

 

میں نے نسلوں میں غلامی مانگی

مجھے اعزاز وہ بخشیں گے ضرور

 

کب میں ہرچیز تجھ پہ واروں گا

کب میں مومن بنوں گا میرے حضور

 

علمِ غیب اُنکا کوئی کیا سمجھے

جب سواری کو بھی ہو کشفِ قبور

 

تیرا صدیقؓ ہے وہ قلزمِ عشق

کر نہیں سکتا کوئی جس کو عبور

 

کتنی بارعب سادگی ہے تری

کتنا لاچار ہے یہاں پہ غرور

 

اشک میرے یہ کہہ رہے ہیں شکیلؔ

دل سے ہرگز نہیں مدینہ دور

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ