چلے نہ ایمان اک قدم بھی اگر تیرا ہمسفر نہ ٹھہرے

ترا حوالہ دیا نہ جائے تو زندگی معتبر نہ ٹھہرے

تُو سایہء حق پہن کے آیا، ہر اک زمانے پہ تیرا سایہ

نظر تری ہر کسی پہ لیکن کسی کی تجھ پر نظر نہ ٹھہرے

لبوں پہ اِیاکَ نستعیں ہے اور اس حقیقت پہ بھی یقیں ہے

اگر ترے واسطے سے مانگوں کوئی دعا بے اثر نہ ٹھہرے

حقیقتِ بندگی کی راہیں مدینہء طیبہ سے گزریں

ملے نہ اُس شخص کو خدا بھی جو تیری دہلیز پر نہ ٹھہرے

کُھلی ہوں آنکھیں کہ نیند والی ، نہ جائے کوئی بھی سانس خالی

درور جاری رہے لبوں پر ، یہ سلسلہ لمحہ بھر نہ ٹھہرے

میں تجھ کو چاہوں اور اتنا چاہوں کہ سب کہیں تیرا نقشِ پا ہوں

ترے نشانِ قدم کے آگے کوئی حسیں رہگزر نہ ٹھہرے

یہ میرے آنسو خراج میرا، مرا تڑپنا علاج میرا

مرض مرا اُس مقام پر ہے جہاں کوئی چارہ گر نہ ٹھہرے

دکھا دو جلوہ بغور اُس کو ، بُلا لو اک بار اور اُس کو

کہیں مظفر بھی شاخ پر سوکھ جانے والا ثمر نہ ٹھہرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]