چہک رہا ہے مرا مقدر کہ مصطفیٰ کے دیار میں ہوں
درود لب پر جھکی ہیں نظریں میں رحمتوں کے حصار میں ہوں
حرم کے جلووں کی جگمگاہٹ نظر سے دل میں اتر رہی ہے
فرشتے گھیرے ہوئے ہیں مجھ کو میں گوشۂ نور بار میں ہوں
دعائیں مقبول ہو رہی ہیں اور اشک بھی رنگ لا رہے ہیں
سخی کی دہلیز پر کھڑی ہوں گدا گروں کی قطار میں ہوں
وہ ہجر کے دن بہت کٹھن تھے خوشا کہ پوری ہوئی تمنا
وصال کے پل بہت حسیں ہیں میں خوب کیف و قرار میں ہوں
ہنر ہے مجھ میں نہ کوئی خوبی بس ان سے نسبت کا آسرا ہے
جو رشکِ خلدِ بریں ہوا ہے میں اس حسیں لالہ زار میں ہوں
کچھ ایسے اسباب ہو گئے ہیں کہ ناز کی حاضری ہوئی ہے
حضور کی بندہ پروری ہے کہ ان کے قرب و جوار میں ہوں