کبھی پھول سے اُبھر کے ، کبھی چاندنی میں ڈھل کے
ترا حسن چھیڑتا ہے مجھے رُخ بدل بدل کے
میں نظر کو روک بھی لوں ، میں خیال کا کروں کیا
مرے دل میں آ نہ جائے کوئی راستہ بدل کے
یہ جہانِ آب و گِل ہے ، یہیں کائناتِ دل ہے
کبھی اس طرف بھی آ جا مہ و کہکشاں سے چل کے
مرا دل تباہ کر دو ، مگر ایک بات سوچو
اگر اک حسیں کلی کو ، کوئی پھینک دے مسل کے
یہ خرد پہ زعم کیسا ، کہ مقامِ عاشقی میں
وہی کھا گئے ہیں ٹھوکر ، جو چلے بہت سنبھل کے
مجھے کیف دینے والے ، مجھے غرق کرنے والے
یہ نظر جواں ہوئی ہے کسی مے کدے میں پَل کے
مرے ساتھ چل رہا ہے ، غمِ زندگی کا صحرا
میں کہاں بھٹک گیا ہوں تری بزم سے نکل کے