کر دوں میں جبیں پیش، نظر پیش، جگر پیش
طیبہ کا سفر کاش کہ اس بار ہو در پیش
انسان تو انسان ہیں دینے کو سلامی
ہوتے ہیں ملائک بھی وہاں آٹھوں پہر پیش
ہر شام ترے در پہ جبیں سائی کو آئے
دربار میں ہوتی ہے ترے روز سحر پیش
نظارہ یہ قرآن کے اوراق میں دیکھو
ہیں نعت میں مصروف سبھی زیر، زبر، پیش
یہ شان فقط تیری ہے اے سرور کونین
کرتا ہے زمانہ تجھے نذرانۂ سر پیش
ہیں پیش نظر نقش قدم شاہ امم کے
آئے گا کہاں راہ میں کچھ خوف و خطر پیش
سرکار صدف کو بھی ملے اذنِ حضوری
مدحت کے اسے کرنے ہیں کچھ لعل و گہر پیش