اردوئے معلیٰ

کس قدر ہے دلنشیں اور جاں فزا مت پوچھیے

اس دیارِ نور کا گنبد ہرا مت پوچھیے

 

کیا نظارہ تھا کہ جب اک ہالۂ رحمت میں تھے

سیدہ حسنین اور شیرِ خدا مت پوچھیے

 

کارِ مدحِ مصطفیٰ سے بات میری بن گئی

دستِ آقا سے مجھے کتنا ملا مت پوچھیے

 

بھیجیے اپنے کریم آقا پہ روز و شب درود

اور درودِ پاک پڑھنے کی جزا مت پوچھیے

 

بس ارادہ کیجیے کہ نعت لکھنا ہے مجھے

کس طرح طرزِ سخن ہو گی عطا مت پوچھیے

 

چند گھڑیاں وہ جو گزریں تھیں حرم کے صحن میں

کس بلندی پر تھا یہ بختِ رسا مت پوچھیے

 

کس طرح یکبارگی ہو گا ہر اک دل پُر سکوں

حشر میں جب ہوں گے وہ جلوہ نما مت پوچھیے

 

دیکھ کر ماہِ ربیع النور کا ماہِ حسیں

ہجر کیوں اس دیدۂ نم سے بہا مت پوچھیے

 

دیکھ کر وہ گنبدِ سر سبز اپنی آنکھ سے

یک بہ یک کیوں دل دھڑکتا رک گیا مت پوچھیے

 

کوئی حجت مت کریں منظر ہے عبدِ مصطفٰی

کیوں سجا رکھتا ہے سر پر نقشِ پا مت پوچھیے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات