کشتِ خیال خشک ہے ، ابرِ سخا سے جوڑ !
یعنی سخن کو مدحتِ زلفِ دوتا سے جوڑ !
تشنہ بہ لب ہوں ساقیِ کوثر ! شرابِ دید !
گرمی زدہ ہوں حشر میں ظِلِّ لِوا سے جوڑ
نقطے سے دونوں پاک ہیں اور شد سے متصف
کیسا ہے نامِ شاہ کا نامِ خدا سے جوڑ
دیتے نہیں غسالہ تمنائی اَرض کو
ساقی پِیا سے رکھتے ہیں کس طرح پیاسے جوڑ
سورج کو ذرۂ رہِ شہ کے حضور لا !
عرشِ علٰی کو مدحتِ نعلینِ پا سے جوڑ
مبعوثِ آخریں تری کیسے نظیر ہو
مخلوق ڈھونڈتی رہی تیرا سدا سے جوڑ
کر محفلِ ثنائے گلِ قدس منعقد
امراض کی خزاں کو بہارِ شفا سے جوڑ
تمدیحِ نورِ شاہ معظمؔ محال ہے
چاہے مہ و نجوم کو حرفِ ثنا سے جوڑ