کوئی لمحہ کبھی لمحات سے کٹ کر آئے

اب وہ آئے تو روایات سے ہٹ کر آئے

دل کی یہ خام خیالی ہے کہ بہلے گا کبھی

عشق موسم تو نہیں ہے کہ پلٹ کر آئے

تُو فقط تُو تو نہیں تھا ، کہ تری صورت میں

دل کی دہلیز پہ افلاک سمٹ کر آئے

تھی ہمیں ضبط کی ڈھالیں تو میسر لیکن

تیر ان آہنی ڈھالوں سے اچٹ کر آئے

تُو اگر اذنِ سفر دے ، تو کہاں جائیں گے

ہم یہاں بھی ترے قدموں سے لپٹ کر آئے

چھاننی سے تو بہر طور گزر آئے ہیں

ہم بھلے سیکڑوں ذرات میں بٹ کر آئے

چند لمحات یہیں ، عمرِ گریزاں ، دم لے

ہم ابھی کارِ زمانہ سے نمٹ کر آئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]