کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کف پا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
ایک بار اور بھی طیبہ سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا
اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ھےتجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا
مشرق و مغرب میں بکھرے ہوئے گلزاروں کو
نکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا