اردوئے معلیٰ

یاقوت لب کو آنکھ کو تارہ نہ کہہ سکیں

ایسا نہ ہو کہ شعر دوبارہ نہ کہہ سکیں

 

وہ چھب کہ نقرئی کبھی زریں دکھائی دے

شعلہ نہ کہہ سکیں جسے پارہ نہ کہہ سکیں

 

سولی کے آسرے پہ ٹکی ہے شکستگی

خوش فہمیاں بھی تم کو سہارہ نہ کہہ سکیں

 

ہم کشتگان موج بلا جاں بلب سہی

ان دلدلوں کو ہم بھی کنارہ نہ کہہ سکیں

 

پس ماندگان سے بھی تقاضہ ہے ہوش کا ؟

یعنی کہ ہم کو لوگ تمہارا نہ کہہ سکیں

 

تیری کمی سے اور سوا ہے تری کمی

تجھ کو دکھا سکیں یہ خسارہ نہ کہہ سکیں

 

اب تاب دید کی نہ سکت ہے بیان کی

ہم روئیداد مرگ نظارہ نہ کہہ سکیں

 

بستی ہی جل رہی ہے یقیناً کہں پرے

ہم اس قدر دھوئیں کو اشارہ نہ کہہ سکیں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات