یقیں کو اک گماں سا کھا رہا ہے

مری منزل کو رستہ کھا رہا ہے

پرندے سوچتے ہیں کیا بنے گا

شجر کو اس کا سایہ کھا رہا ہے

محبت ہے محبت کے مقابل

مجھے انسان ہونا کھا رہا ہے

جدائی کا تو صدمہ کچھ نہیں تھا

مجھے تیرا دلاسہ کھا رہا ہے

مری بستی بھی اس کے پیٹ میں تھی

سمندر تو جو دریا کھا رہا ہے

مری بنیاد میں اک خوف ہے جو

مرا سارا اثاثہ کھا رہا ہے

عجب غم ہے ادھوری داستاں کا

یہ غم تو مجھ کو سارا کھا رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]