یقیں کو اک گماں سا کھا رہا ہے
مری منزل کو رستہ کھا رہا ہے
پرندے سوچتے ہیں کیا بنے گا
شجر کو اس کا سایہ کھا رہا ہے
محبت ہے محبت کے مقابل
مجھے انسان ہونا کھا رہا ہے
جدائی کا تو صدمہ کچھ نہیں تھا
مجھے تیرا دلاسہ کھا رہا ہے
مری بستی بھی اس کے پیٹ میں تھی
سمندر تو جو دریا کھا رہا ہے
مری بنیاد میں اک خوف ہے جو
مرا سارا اثاثہ کھا رہا ہے
عجب غم ہے ادھوری داستاں کا
یہ غم تو مجھ کو سارا کھا رہا ہے