ابھی تمہارے زمانے تلک نہیں پہنچا
میں یعنی اپنے ٹھکانے تلک نہیں پہنچا
فریب عشق کی ہر رہ گزر ہے الجھی ہوئی
ترے کسی بھی بہانے تلک نہیں پہنچا
جوبات دل میں تھی اس کے رہی دل میں
کہ تیر اپنے نشانے تلک نہیں پہنچا
قلم سے میں نے زمیں آسماں ملائے پر
یہ آسمان گرانے تلک نہیں پہنچا
ابھی تو دھول اڑانی ہے راستوں کی زبیرؔ
سفر میں ہوں میں ٹھکانے تلک نہیں پہنچا