آج تک اس کا کیف طاری ہے

جو مدینے میں شب گزاری ہے

جام بھر بھر کے پی رہے ہیں سبھی

چشمۂ فیضِ عام جاری ہے

دل مدینے کی سمت جانے لگا

جب چلی بادِ نو بہاری ہے

امتی ہیں شفیعِ محشر کے

خوش نصیبی بڑی ہماری ہے

ہم کو پھر ابرہہ نے گھیر لیا

کعبۂ دل پہ سنگ باری ہے

شادمانی ہو یا پریشانی

لب پہ ہر دم درود جاری ہے

دونوں دنیاؤں میں کلیدِ نجات

ان کی سیرت پہ استواری ہے

منکرِ نورِ مصطفیٰ لا ریب

دوزخی ہے وہ شخص ناری ہے

اشک بن کے نکل اے خونِ جگر

خشک آنکھوں کی راہداری ہے

ہم کو ان کا خیال کچھ بھی نہیں

ان کو امت بہت پیاری ہے

ان کا شان و مقام کیا ہو گا

جن کی لوگو نبی سواری ہے

شیوۂ ختمِ مرسلیں مظہرؔ

چارہ سازی و غمگساری ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]