آج دورِ حاضر کے معروف شاعر انجم لکھنوی کا یومِ پیدائش ہے ۔

——
اصل نام : اقبال حلیم خان صاحب
تخلص : انجم لکھنوی
تاریخ ولادت : 7 مارچ 1973
بمقام : مستاں روڈ تحصیل فتح پور ضلع بارہ بنکی اترپردیش
ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں ہوئی 1987 میں اپنے بڑے والد کے ساتھ ممبئی آگئے آپ کا دور طفلی سے ہی شاعری کا شوق تھا جو ممبئی کی سرزمین پر پورا ہوا زہے نصیب نامور شاعر سید عثمان صاحب جنکا تخلص عیش کنول تھا انجم لکھنویؔ صاحب نے انھیں صدق دل سے اپنا استاد مانا عیش کنول صاحب محتاج تعارف اسلئےنہیں تھے أپکے ان گنت نغمےمحمد رفیع صاحب نےگائے ہیں موصوف کا ادبی ذوق دیکھ کر محترم عیش کنول صاحب نے کافی محبت و شفقت اور قربت عنایت فرماکر مکمل توجہ فرمائی اور خاص بات یہ ہے کہ ان کےاکلوتےشاگرد ہیں انہوں نے کسی اور کو شاگرد بنایا ہی نہیں
جناب انجم لکھنوی صاحب 1990 سے 2005 تک آپ کی قربت میں رہے 2005 میں عیش کنول صاحب وصال فرماگئے اس نوجوان شاعر نےاس وقت تک اپنے فن کا جھنڈا دنیائے ادب میں گاڑ دیا،اور آپ کی شاعری کا لوہا بڑے بڑے شعراء نے مان لیا آپ کا مشہور زمانہ شعر
——
یہ سوچ کے میں کوچۂ قاتل میں نڈر تھا
موسیٰ جہاں رہتے تھے وہ فرعون کا گھر تھا
——
یہ بھی پڑھیں : لب پہ شکوہ بھی نہیں، آنکھ میں آنسو بھی نہیں
——
آپ کی تلمیحی غزل منظر عام پہ آئی مشاعروں میں بہت پذیرائی ہوئی ، اللہ رب العزت نے علم سخن میں بڑی پختگی اور عروج عطا فرمایا کہ موصوف کی بارگاہ میں کثیر تعداد میں نو مشق شعراء آج بھی فیضیاب ہو رہے ہیں، جناب انجم لکھنوی صاحب کی شخصیت اور اشعار محتاج تعارف نہیں
——
عزم محکم خرید سکتا ہوں
قوم کا غم خرید سکتا ہوں
ایک پیسے پہ یا نبی لکھ کر
سارا عالم خرید سکتاہوں
——
آپ کے کئی شعری مجموعے منظر عام پہ پر آئے خاص طور پر ضرب موسی ,اور بچوں کیلئے :عظمت ماں: جیسا نایاب مجموعہ جو عوام میں کافی مقبول ہوا، اس کے بعد اچانک اس نظم نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی جس نے ڈاکٹر علامہ اقبال کی یاد تازہ کردی اس نظم کا عنوان اِس عظیم شاعر نے :سوال فاسق جواب خالق: رکھا جو بعد میں لوگوں نے شکوہ جواب شکوہ رکھ دیا ۔:سوال فاسق جواب خالق: نام رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر علامہ اقبال کا نام مجروح نہ ہوجائے اور ان کی شان میں گستاخی تصور نہ کی جائے،اس نظم نے جناب انجم لکھنوی صاحب کو اوج ثریا تک پہونچانے کا کام کیا۔ اس نظم کا ایک پہلا بند ملاحظہ فرمائیں
——
شکوہ
——
تیری رحمت کو نہ کیوں دیدئہ پرنم ڈھونڈھے
ہے جسے تیری ضرورت وہی پیہم ڈھوند ھے
پھول کو گلشن ہستی میں بھی شبنم ڈھونڈ ھے
خلدآدم کو، کبھی خلد کو آدم ڈھونڈ ھے
شکوئہ عبد بھی سن کر تیرا پردہ نہ اٹھا
تیری مرضی تو مجھے جلوہ دکھا یا نہ دکھا
——
اس نظم میں تقریباً اڑتالیس بند ہیں،اس نظم کےلئے 2017 میں مستقیم انٹرکالج گیانی پور ضلع سلطان پور اتر پردیش نے شکوہ جواب شکوہ نظم کو ایک کتابی شکل دیکر بڑے عالیشان پیمانے پر اس کتاب کی رسم اجراء کی اورجناب انجم لکھنوی صاحب کوڈاکٹر علامہ اقبال ایوارڈ دیتے ہوئے ثانئ علامہ اقبال کے خطاب سے نوازا گیا۔جناب انجم لکھنوی صاحب نے اصناف سخن میں کوئی صنف چھوڑی ہی نہیں حمد،نعت،منقبت،گیت،غزل رباعی۔ہزل،نوحہ،مرثیہ،قطع دیگر طبع آزمائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی،قارئ وقت نعت پاک کے اس حسین مطلع سے اندازہ لگائیں
——
مجھ پر نظر اسی لئے اہل نظر کی ہے
ہر چیز میرے گھر میں محمد کے گھر کی ہے
——
آپ کے اشعار ممدوح کی شان دوبالا کرتےہیں، جدید لب و لہجے میں آپ کی غزلیں کافی مشہور ہیں
——
سورج کی شفق دامن آفاق میں گم ہے
نیرنگ شقی مظہر اشراق میں گم ہے
گہوارئہ تہذیب میں جو پل کے جواں ہو
گم اس میں ہے اخلاق وہ اخلاق میں گم ہے
مفہوم ازل آج کا انسان نہ سمجھا
عنوان اجل لذت تریاق میں گم ہے
——
جناب انجم لکھنوی صاحب کے اشعار میں سلاست،بانکپن اور جدت اور زبان وبیان کی مٹھاس خوب محسوس ہوتی ہے جیسے کہ
——
جاتاہے سوئے چاند ارادہ بدل کے دیکھ
سورج میں کتنی آگ ہے سورج پہ چل کے دیکھ
——
آپ نے اپنی زندگی میں کافی نظمیں ،غز لیں تحریر کی عصر حاضر میں آپ کا ہم عصر نہیں دیکھا،اتنا بلندپایہ شاعر ہونے کے باجود آپ کی انکساری سادہ لوحی فی زمانہ نہیں دیکھی
قوم کو بیدار کرنے کا جذبہ موصوف میں کس درجہ موجود ہے اپ اس قطعہ میں محسوس کرسکتے ہیں :
——
برق حملے سر افلاک بھی کر سکتی ہے
چاند تاروں کی قبا چاک بھی کر سکتی ہے
حوصلہ چاہئے حالات سے لڑنے کے لئے،
کام تلوار کا مسواک بھی کر سکتی ہے۔
——
اس کہانی کا موڑ کچھ بھی نہیں
، ہے طوالت نچوڑ کچھ بھی نہیں
وہ بہتر تھے جن سے پھیلا دین
، ہم بہتر کروڑ کچھ بھی نہیں
——
معاصرین کی آرا
——
تجھکو شہرت جہاں کی اگر چاہئے
ہاں مگر کچھ تو تجھ میں ہنر چاہئے
——
النجم لکھنوی صاحب کے بارے میں لب کشائی کرنا گویا سورج کو چراغ دکھانا ہوگا۔ انجم لکھنوی صاحب کا ایک ایک شعر قوم کی رہنمائی کرتا ہے، انجم لکھنوی صاحب کا مکتب سخن انتہائی وسیع ہے کہ تعارف کا محتاج نہیں آپ کے مکتب فکر سے نکلے ہوئے چند شعراء آل انڈیا مشاعروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ میں نے انجم صاحب سے جب اُن شاعروں کا نام درج کرنے کی درخواست کی تو وہ کہنے لگے ہر کوئی اُستاد بننا چاہتا ہے۔ کسی کا ذکر کر کے خواہ مخواہ اپنے سر تہمت لگانا ٹھیک نہیں ہے دن بھر میں درجنوں کلام بانٹنے والے اس شاعر کی اعلیٰ ظرفی سے ذہن قاصر ہے۔ خاموش رہ کر اُردو کی زندگی کے لئے کیا نہیں کرتا۔ میں نے تو آج تک ایسا شاعر نہیں دیکھا کہ کسی بھی مصرعہ طرح پر فوراً کلام خود بھی کہے اور شاگردوں کی مدد بھی کرے۔ اور شامل محفل بھی رہے۔ گانگی کی دنیا میں انجم لکھنوی کے کلاموں کی شہرت گلوکار الیس رحمان ، شبیر کمار، انور، انورادھا پوڈوال ، سلیم جاوید قوال، حنیف آگرے والے سکندر شادقوال، عبداللطیف حیراں قوال، شمیم شعله قوال، نعیم ہاشمی چشتی قوال، محمد عزیز قوال بہرائچ والے عرفان تلنے اں قوال، رانی کوثر قوالہ اور دیگر گلوکاروں نے آپ کے نغمات گائے ۔ انجم لکھنوئی صاحب کا شکوہ عہد حاضر کے مسلمانوں کو چونکا دینے والا شکوہ ہے جو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے شکوے کی تائید کرتا ہے۔ اہل نظر مطالع کریں اور انجم لکھنوی صاحب کی ذہنیت کو پرکھیں ۔ عین نوازش ہوگی
یوسف رانا مالیگانوی
——
یہ بھی پڑھیں : انجم اعظمی کا یوم پیدائش
——
ایک شاعر یا ادیب اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے ۔ یوں تو دیگر میدانوں میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جیسے تبصرہ نگار یا تاریخ نگار یا تجزیہ نگار جوزمین و مکان کے احوال و کوائف بیان کیا کرتے ہیں لیکن ان سب میں سب سے انفرادی مقام ایک شاعر کا ہوتا ہے کیوں کہ شاعر کسی کی ایما پر کوئی شعر قلم بند نہیں کرتا بلکہ اپنے دل کی آواز پر قلم بند کرتا ہے جس میں سچائی کے سوا کسی دوسری شئے کا گزر نہیں۔ ایک شاعر اپنے اساتذہ سے فیض اٹھاتے ہوئے جس طرح اس کے استاد نے اپنے عہد کی ضروریات کو اشعار کے پیکر میں ڈھالا اسی طرح آج کا شاعر آج کے عہد کی ضروریات و تقاضوں کو قلم بند کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کی زبوں حالی ان کی گمرہی پر قلم اٹھایا اور بہت سی ایسی نظمیں کہیں جس میں ملت اسلامیہ کوحرکت و عمل کا ایک پیغام دیا۔ اسی میں ان کی ایک نظم "شکوہ جواب شکوہ بھی ہے۔ آج کے عہد کا ایک شاعر جو کہ اقبال سے متاثر بھی ہے اور ایک دھڑکتا ہوا دل رکھتا ہے۔ اس نے بھی اقبال کے اس شکوہ اور جواب شکوہ سے متاثر ہو کر اس عہد میں ملت کے مسائل کو سمجھا اور اپنے دل کی آواز کو اسی طرز پر قلم بند کیا جیسے علامہ اقبال نے کیا تھا۔ میری مرادا انجم لکھنؤی صاحب سے ہے جو کہ لکھنو کے ادب کی خوشبو کو سمیٹے عروس البلاد کے ادب کے گیسوؤں کو اس وقت سنوار رہے ہیں۔ انجم لکھنوی نے بھی اس عہد میں ملت کے مسائل کا باریک بینی سے مطالع کرتے ہوئے اللہ سے شکوہ کیا اور پھر اللہ کی طرف سے اسکا جواب بھی دیا۔اور اپنی اس نظم کا نام بھی شکوہ جواب شکوہ “ رکھا۔ ڈاکٹر انجم صاحب کے یہاں بھی ایک سچے مومن کی تڑپ دکھائی دیتی ہے وہ بھی ملت کے احوال و کوائف سے اس قدر رنجیدہ نظر آتے ہیں جس قدرا قبال آتے تھے۔ اور پھر جواب شکوہ میں اس تیور کا مظاہرہ کرتے ہیں جس طرح اقبال نے کیا تھا۔ انجم صاحب کی اس نظم سے ملت کو اپنی خامیوں کا احساس بھی ہو گا ساتھ ہی اس کے تدارک کا نسخہ بھی ملے گا۔ مجھے امید ہے کہ ادب اسلامی میں ان کی یہ نظم ایک سنگ میل قائم کریگی۔
عامل سلطانپوری
صحافی و ناظم مشاعرہ ہلکچر رار دو ایم جی ایس کالج سلطان پور
——
شعر و شاعری یوں تو توفیق الہی ہے اور اس کا بہترین عطیہ خدائے لم یزل جسے چاہے اس نعمت عظمی سے نواز دے مگر ساتھ ہی ذوق شاعری اس فن میں چار چاند لگادیتی ہے۔ البتہ شاعری کے بھی دو پہلو ہوتے ہیں یعنی شاعری صالح بھی ہوتی ہے اور غیر صالح بھی۔ اب وہ شاعر کے ذوق طبع پر منحصر ہے۔ جیسا شاعر کا مزاج ہوگا ویسی شاعری ہوگی۔
زیر نظر کتاب "شکوہ جواب شکوہ جومحترم انجم لکھنوی صاحب کی ہے انھوں نے بڑی عرق ریزی سے فن ادب کی خدمت کی ہے۔ ان کے کلام میں بڑی چاشنی ہے انھوں نے کسی ایک صنف شاعری میں محدود نہ رہ کر جملہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ انھوں نے حمد ،نعت اور غزل پر بھر پور لکھا ہے۔ جہاںنسبت سرکار علیہ الحیۃ والثنا کا بخوبی اظہار ہے وہیں رحمت الہیہ پر کامل بھروسہ بھی ان کی شاعری کا طرہ امتیاز ہے۔ انھوں نے بڑی بے باکی سے حالات حاضرہ پر خامہ فرسائی بھی کی ہے۔ جس میں طنز و مزاح کا پہلو بخوبی نمایاں ہے۔ علامہ اقبال سے پہلے فن شاعری میں شکوہ کا رواج نہیں تھا اور نہ ہی ان کے بعد کسی نے اس موضوع پر قلم اٹھایا مگر انجم صاحب نے علامہ صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی یاد تازہ کردی۔ علامہ کی طرح انھوں نے بھی شکوہ میں کسر نہیں چھوڑی ہے اور نہ ہی جواب شکوہ کو تشنہ چھوڑا ہے۔ انکی شاعری میں ہر شعر فن کلام کے دائرے میں ہے کہیں بھی اشعار کے نقائص کا گزردکھائی نہیں دیتا ہے۔ مکمل فن کے حدود میں ہر شعر دل کی گہرائیوں سے نکلتا محسوس ہوتا ہے۔ انھوں نے قوم وملت کی ترجمانی کا بھی حق خوب ادا کیا ہے۔ وعظ ونصیحت کے ساتھ نہایت حکیمانہ انداز میں سرزنش بھی کی ہے۔
انھوں نے غزل کو صرف حسن و عشق کے پیرائے میں نہیں ڈھالا ہے بلکہ سماجی حالات کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ ان کے اشعار میں قوم کا درد اور اس کا مداوا بخوبی پنہاں ہے ہر طرح سے انھوں نے قوم کو ایک آفاقی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ مولی تعالی اس کوشش کو بار آور فرمائے۔ ان کا قلم بڑ ا مشاق ہے ان کی شاعری دیکھ کر پرانے اور مشہور زمانہ شعراء کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ ان کے لئے بس یہی دعا ہے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
والسلام على من اتبع الهدى
راقم : عبد الوہاب عزیزی امام و خطیب مسجد فیضان رضا اندر نگر بینگن واڑی گوونڈی ممبئی ۴۳
——
یہ بھی پڑھیں : مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا
——
انجم لکھنوی صاحب سے قریب دس سال پہلے میری قائم کردہ بزم ”بزم عزیز بارہ بنکی کی ایک طرحی نششت میں اتفاقاً ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا پھر اس کے بعد کافی عرصہ کے بعد تیمور کی ایک ادبی محفل میں ملاقات ہوئی تو پرانی یادیں تازہ ہوگئیں ۔ آپ کی شعری صلاحیت کا تو میں پہلی ہی ملاقات میں قائل ہوگیا تھا، لیکن اس ملاقات میں انہیں خوب خوب سنا اور یہ احساس ہوا کہ یہ معمولی فنکار نہیں ہیں، لیکن آج میں جب بمبئی میں ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوا تو انہوں نے شکوہ جواب شکوہ کا مسودہ دیا۔ اور میں نے اس کا بغور مطالعہ کیا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ علامہ اقبال کے بعد اگر کسی نے یہ جسارت کی ہے تو وہ انھیں کے ہم نام ڈاکٹر محمد اقبال ( انجم لکھنوی) ہیں۔ موصوف کی کوشش کہاں تک کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ میں نہیں قارئین کرام کریں گے، میں تو بس انجم صاحب کے لئے اتنا کہونگا کہ اللہ کرے زور قلم اور ترقی کرتی رہے۔
ناچیز نصیر انصاری بارہ بنکوی ، اتر پردیش
——
انجم لکھنوی ایک معتبر اور مکمل شاعر ہیں الفاظوں نے گو یا فکر انجم کے تلوے دھو کر پی لئے ہوں تبھی تو وہ انجم لکھنوی کے حضور میں دست ادب جوڑے کھڑے رہتے ہیں انھیں اصناف تغزل پر یکساں عبور حاصل ہے انکی شاعری اپنی نفسیات اپنے رموز و علایم اپنی تراکیب اور اپنے لب ولہجہ کی بنا پر منفرد ہے۔ انکے طرز اظہار میں کوئی تصنع اور نمائش دیکھنے کو نہیں ملتی ان کے سینے میں احساسات و جذبات کا ایک دریا موجزن ہے انکی شاعری جمال آفریں کیفیات کی حامل بھی ہے اور وجدانی تجربات کی آئینہ دار بھی نیز سماجی اخلاقی اقدار اور تہذیب و تمدن و جمالیاتی اوصاف سے مالا مال بھی اور باخبر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال ثانی انجم لکھنوی کی شاعری میں علامہ اقبال
کی خاک پا کی قدم بوسی کرتی ہوئی فکر ملتی ہے اور آپ میں علامہ اقبال کا نقیب بنے کی پوری توانائی موجود ہے۔ اجم لکھنوی نئے تیور اور نئے آہنگ کے شاعر ہیں زبان کو برتنے کا سلیقہ انھیں خوب آتا ہے ان جملوں کا انتساب انجم لکھنوی کی نظم شکوہ پڑھکر صحیح اور سچا لگے گا۔ چاندنی، آبشار، دھوپ، چاند، ستارے، سورج، پھول، پتیاں ،تلی، شفق، پرندے، شجر ، خواب، رات کا جل ، حور و غلماں، برزخ ، بہشت، دوزخ ، آنکھ، آگ ، آنچل ، دریا، شبنم ، شعلہ، کوئل کی کوکو، مرغ کی بانگ، اسکے مخصوص شعری تلازمات ہیں۔ جنکے استعمال سے روشنی کی نئی کر نیں پھوٹتی ہیں جو انھیں انکی نظم "شکوہ” کے موجد ہونے کے سبب اقبال ثانی کے لقب کا حقدار بجھتی ہیں ۔ میں اپنے دعائیہ اشعار کے اور نیک خواہشات کے ساتھ اقبال ثانی انجم لکھنوی کو انکی بے باک نظم شکوہ تحریر کرنے پر دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ اور دعا کرتا ہوں کہ اج لکھنوی کو خدا مفہوم سے عاری ہشمشیر بے نیام صفت درباری مفتیوں کی قلم سے محفوظ رکھے اور اس بے مثل بچی کاوش کی دنیا کے عرض وطول میں پزیرائی ہو۔ آمین ثم آمین
راقم الحروف سید انتظار عالم ( فہم اعظمی )
——
یہ بھی پڑھیں : فنا ہو جائے گی دنیا مہ و انجم نہیں ہوں گے
——
حجم لکھنوی جن کا نام محمد اقبال خان ہے، میرے ہم وطن اور میرے مخلص دوست ہیں۔ آپ عرصہ دراز سے بسلسلۂ حصول معاش ممبئی میں مقیم ہیں، بچپن ہی سے آپ کو شعر و شاعری سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا اور اس جنون کو ممبئی کی بود و باش نے پایہ تکمیل تک پہونچایا۔ ہم عصر شعراء میں اپنے منفر دلب و لہجے اور بلند فکری پرواز کے سبب انجم لکھنوی ایک نمایاں اور اہم نام ہے۔ آپ کو علم عروض پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ آپ کے اشعار میں بلا کی تازگی اور شگفتگی جابجا اپنے ہونے کا جواز پیش کرتی ہے۔ اصناف سخن کی ہر صنف میں آپنے طبع آزمائی کی ہے، غزل، نعت، قصیده، رباعی، نظم ، گیت ، سلام ، غرض یہ کہ ہر شعری میدان میں آپ نے اپنے احبب قلم کو روانی اور ثابت قدمی سے دوڑایا ہے، وہ بھی کامیابی اور کامرانی کے ساتھ۔ انجہ لکھنوی سے ملنے کے بعد آپ کو محسوس ہوگا کہ واقعی آپ ایک شاعر سے ملے ہیں۔ وہ کھوئے ، کھوئے ، اپنےاندر کسی سے نبرد آزما نظر آئیں گے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں ، مضمون آفرینی ، اور بندشِ الفاظ کی تگ و دو میں الجھے نظر آئیں گے۔
انجم لکھنوی گوناں گوں خوبیوں کے مالک ہیں، شرافت نفسی اور اعلیٰ انسانی قدروں کے پاسدار اور امین ہیں، اور یہ سب انہیں ورثہ میں ملا ہے۔ حق گوئی اور صاف گوئی ان کی فطرت ہے، سی پائیدار ہے اور جھوٹ وقتی “ یہ ان کا قول ہے!
شکوہ – جواب شکوہ ان کی دوسری کتاب کا نام ہے، اس سے پہلے ان کی ایک کتاب ، عظمت ماں“ شائع ہو کر سند قبولیت خاص و عام پا چکی ہے، شکوہ جواب شکوہ، ایک طویل نظم میں فکر اور انداز بیان بینیت موضوع اور پرشکوہ الفاظ کی ترتیب، رواں دواں بحر کی غنائیت ، فکری اسالیب کی طمانیت ، سلیس اور آسان زبان میں شاعری کے جملہ لوازمات کا احترام، مذہبی عقائد، واجبات کو محوظ رکھ کر شعری روش پر کامرانی کے ساتھ دعوت فکر دیتا ہے، اس نظم کا ایک ، ایک شعر قاری کو بجس کی وادیوں کی سیر کراتا ہے۔ شعری محاسن کا التزام اس نظم کا خاصہ ہے، الفاظ کی بندش اس کا نمایاں وصف ہے۔
شکوہ جواب شکوہ، جیسی نظم لکھ کر انجم لکھنوی نے ایک کارنامہ انجام دیا ہے جو ہر مکتب فکر کے قاری کے ذہن کو جھنجھوڑ سکتی ہے اور اسکی زبان سے شاعر کیلئے داد تحسین کے الفاظ نکل سکتے ہیں۔ میں بار گاه رب العزت میں دعا گو ہوں کہ انجم لکھنوی کی یہ کتاب "شکوہ – جواب شکوہ شائع ہو کر مقبول خاص و عام ہو، اور خدائے برتر انجم کوشاد و آباد رکھے کہ انھیں ابھی بہت کچھ شعر وادب کی خدمت کرنا ہے۔ آمین ۔ رحمان
عباسی مستان روڈ تحصیل فتح پور بارہ بنکی (یوپی)
——
منتخب کلام
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
حصارِ دہر ہے ذکر خدا سنبھالے ہوئے
کبھی سنبھلتا نہیں زلزلہ سنبھالے ہوئے
کسی ستون پہ ٹھہراؤ آسماں کا نہیں
مرے خدا کی ہے اب تک رضا سنبھالے ہوئے
وہ لفظ کُن سے جو چاہے وہ خلق فرمائے
رسول پاک ہیں اُس کی عطا سنبھالے ہوئے
یہ چاند تارے نظام فلک زمین و زماں
خدا کے بعد ہیں صل علیٰ سنبھالے ہوئے
رسول پاک گئے عرش پر شب معراج
ندائے حق تھی مکمل فضا سنبھالے ہوئے
خیال محو زیارت تھے جسم گھر میں رہا
اڑا کے لے گئی مجھ کو صبا سنبھالے ہوئے
عمل کی راہ سے انجم بھٹک نہیں سکتا
ہیں ہر قدم پہ شہہِ انبیاء سنبھالے ہوئے
——
یہ بھی پڑھیں : ماہِ تاباں سے بڑھ کر ہے روشن جبیں تجھ سا کوئی نہیں تجھ سا کوئی نہیں
——
مناجات
——
یا مرے مولا مجھے اپنے کرم کی بھیک دے
بھیک دے مجھ کو شہنشاہ اتم کی بھیک دے
علم و فن میں برکتیں دے از طفیل پنجتن
مالک لوح و قلم لوح و قلم کی بھیک دے
رزق دے رزاق کر میری دعائے دل قبول
ابن عبد اللہ کے جاہ و حشم کی بھیک دے
سنگ اسود چومنے کی ہے مجھے خواہش بہت
حج کی دے توفیق اور شانِ حرم کی بھیک دے
پی لیا جام شہادت اصغر بے شیر نے
اس حضرت شبیر کے اس رنج و غم کی بھیک دے
کربلا کے بعد ہے مشک سکینہ جس کے ساتھ
غازی ملت کے اس نوری علم کی بھیک دے
یا خدا ثابت قدم رکھ مجھ کو راہ دین پر
سرور کونین کے نقش قدم کی بھیک دے
جو غم امت میں رویا رات بھر سویا نہیں
اپنے اس محبوب کی تو چشم نم کی بھیک دے
اک ترا محبوب ہے تخلیق دنیا کا سبب
تو نے جو قرآں میں کھائی اس قسم کی بھیک دے
غیر کے در پر نہ جائے گا یہ انجمؔ لکھنوی
خالق کل مالک عرب و عجم کی بھیک دے
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
عرش کے مسند نشیں اور وارث لوح و قلم، شاہ اسم
والی کون و مکاں شاہ عرب شاہ عجم، شاہ اسم
جسم کا سایہ نہ ثانی باخدا سب سے جدا نور خدا
انبیا کے صف میں بیشک محترم ہیں محترم ، شاہ اسم
آدم و یحییٰ زکریا لوط و یونس فجر گل ، ختم الرسل
مرحبا صد آفریں صد آفریں حق ذی حشم ، شاہ اسم
امتی ہونے کی مانگی تھی دعا عیسی نے بھی ، ہو کر نبی
آپ کے ذاکر رہے فضل خدا وہ دم به دم ،شاہ اسم
دامن امید اب بھر دیجئے بھر دیجئے ، کچھ کیجئے
مشکلیں در پیش ہیں اور ساری امت چشم نم ، شاه اسم
ہو کرم کی اک نظر آقا ادھر آقا ادھر ، شام و سحر
کافروں کے بڑھ گئے جور و جفا ظلم و ستم ، شاہ امم
آپ ہیں اللہ کے پیارے نبی سچ ہے ہی ، ہم امتی
حشر میں رکھئے گا انجمؔ کا بھرم جانِ کرم ، شاہ امم
——
آنکھ وہ گھر ہے کہ جس میں رہیں چھپ کر آنسو
غم جو دستک دے تو آجاتے ہیں باہر آنسو
برف کی طرح پکھل جاتا ہے فطرت ان کی
خشک ہو جائیں تو بن جائیں گے پھر آنسو
ضبط غم ساتھ اگر چھوڑ دے یہ بھی ہوگا
ایک ہی رات میں بھر دیں گے سمندر آنسو
کتنی غیرت ہے کہ ہو جاتے ہیں پانی پانی
آپ خود دیکھ لیں انگلی سے اٹھا کر آنسو
تم یہ کہتے ہو کہ اب چھوڑ دو رونا دھونا
میں یہ کہتا ہوں کہ ہے میرا مقدر آنسو
میں نہ کیونکر انھیں الماس کے موتی سمجھوں
میری آنکھوں میں جواں ہوتے ہیں پل کر آنسو
جانے کیا اہل چمن پر ہے مصیبت انجمؔ
خون کی شکل میں روتے ہیں کبوتر آنسو
——
دل یادوں کا محل بنا ہے دیوار و در روتے ہیں
شام ڈھلے اسلاف کے سائے سینے لگ کر روتے ہیں
آبلہ پائی دیکھنے والو کیا ہوگا احساس تمہیں
مس ہوتے ہیں جب چھالوں سے راہ کے کنکر روتے ہیں
بیتابی کیا شئے ہوتی ہے رات میں آکر دیکھو تو
گھر کے اندر رونے والے گھر کے باہر روتے ہیں
برق تپاں کا ظلم ہے ایسا سب کا شانے راکھ ہوئے
مسجد کی مینار پہ بیٹھے آج کبوتر روتے ہیں
ہم سے بغاوت کرنے والوں کی حالت کچھ ایسی ہے
رات گئے احساس کے دامن میں وہ چھپ کر روتے ہیں
صرف میرے حصے میں تلچھٹ اسکو صراحی بھر کے شراب
تاریخ ولادت : 7 مارچ 1973
بمقام : مستاں روڈ تحصیل فتح پور ضلع بارہ بنکی اترپردیش
ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ فرقانیہ میں ہوئی 1987 میں اپنے بڑے والد کے ساتھ ممبئی آگئے آپ کا دور طفلی سے ہی شاعری کا شوق تھا جو ممبئی کی سرزمین پر پورا ہوا زہے نصیب نامور شاعر سید عثمان صاحب جنکا تخلص عیش کنول تھا انجم لکھنویؔ صاحب نے انھیں صدق دل سے اپنا استاد مانا عیش کنول صاحب محتاج تعارف اسلئےنہیں تھے أپکے ان گنت نغمےمحمد رفیع صاحب نےگائے ہیں موصوف کا ادبی ذوق دیکھ کر محترم عیش کنول صاحب نے کافی محبت و شفقت اور قربت عنایت فرماکر مکمل توجہ فرمائی اور خاص بات یہ ہے کہ ان کےاکلوتےشاگرد ہیں انہوں نے کسی اور کو شاگرد بنایا ہی نہیں
جناب انجم لکھنوی صاحب 1990 سے 2005 تک آپ کی قربت میں رہے 2005 میں عیش کنول صاحب وصال فرماگئے اس نوجوان شاعر نےاس وقت تک اپنے فن کا جھنڈا دنیائے ادب میں گاڑ دیا،اور آپ کی شاعری کا لوہا بڑے بڑے شعراء نے مان لیا آپ کا مشہور زمانہ شعر
——
یہ سوچ کے میں کوچۂ قاتل میں نڈر تھا
موسیٰ جہاں رہتے تھے وہ فرعون کا گھر تھا
——
یہ بھی پڑھیں : لب پہ شکوہ بھی نہیں، آنکھ میں آنسو بھی نہیں
——
آپ کی تلمیحی غزل منظر عام پہ آئی مشاعروں میں بہت پذیرائی ہوئی ، اللہ رب العزت نے علم سخن میں بڑی پختگی اور عروج عطا فرمایا کہ موصوف کی بارگاہ میں کثیر تعداد میں نو مشق شعراء آج بھی فیضیاب ہو رہے ہیں، جناب انجم لکھنوی صاحب کی شخصیت اور اشعار محتاج تعارف نہیں
——
عزم محکم خرید سکتا ہوں
قوم کا غم خرید سکتا ہوں
ایک پیسے پہ یا نبی لکھ کر
سارا عالم خرید سکتاہوں
——
آپ کے کئی شعری مجموعے منظر عام پہ پر آئے خاص طور پر ضرب موسی ,اور بچوں کیلئے :عظمت ماں: جیسا نایاب مجموعہ جو عوام میں کافی مقبول ہوا، اس کے بعد اچانک اس نظم نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی جس نے ڈاکٹر علامہ اقبال کی یاد تازہ کردی اس نظم کا عنوان اِس عظیم شاعر نے :سوال فاسق جواب خالق: رکھا جو بعد میں لوگوں نے شکوہ جواب شکوہ رکھ دیا ۔:سوال فاسق جواب خالق: نام رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر علامہ اقبال کا نام مجروح نہ ہوجائے اور ان کی شان میں گستاخی تصور نہ کی جائے،اس نظم نے جناب انجم لکھنوی صاحب کو اوج ثریا تک پہونچانے کا کام کیا۔ اس نظم کا ایک پہلا بند ملاحظہ فرمائیں
——
شکوہ
——
تیری رحمت کو نہ کیوں دیدئہ پرنم ڈھونڈھے
ہے جسے تیری ضرورت وہی پیہم ڈھوند ھے
پھول کو گلشن ہستی میں بھی شبنم ڈھونڈ ھے
خلدآدم کو، کبھی خلد کو آدم ڈھونڈ ھے
شکوئہ عبد بھی سن کر تیرا پردہ نہ اٹھا
تیری مرضی تو مجھے جلوہ دکھا یا نہ دکھا
——
اس نظم میں تقریباً اڑتالیس بند ہیں،اس نظم کےلئے 2017 میں مستقیم انٹرکالج گیانی پور ضلع سلطان پور اتر پردیش نے شکوہ جواب شکوہ نظم کو ایک کتابی شکل دیکر بڑے عالیشان پیمانے پر اس کتاب کی رسم اجراء کی اورجناب انجم لکھنوی صاحب کوڈاکٹر علامہ اقبال ایوارڈ دیتے ہوئے ثانئ علامہ اقبال کے خطاب سے نوازا گیا۔جناب انجم لکھنوی صاحب نے اصناف سخن میں کوئی صنف چھوڑی ہی نہیں حمد،نعت،منقبت،گیت،غزل رباعی۔ہزل،نوحہ،مرثیہ،قطع دیگر طبع آزمائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی،قارئ وقت نعت پاک کے اس حسین مطلع سے اندازہ لگائیں
——
مجھ پر نظر اسی لئے اہل نظر کی ہے
ہر چیز میرے گھر میں محمد کے گھر کی ہے
——
آپ کے اشعار ممدوح کی شان دوبالا کرتےہیں، جدید لب و لہجے میں آپ کی غزلیں کافی مشہور ہیں
——
سورج کی شفق دامن آفاق میں گم ہے
نیرنگ شقی مظہر اشراق میں گم ہے
گہوارئہ تہذیب میں جو پل کے جواں ہو
گم اس میں ہے اخلاق وہ اخلاق میں گم ہے
مفہوم ازل آج کا انسان نہ سمجھا
عنوان اجل لذت تریاق میں گم ہے
——
جناب انجم لکھنوی صاحب کے اشعار میں سلاست،بانکپن اور جدت اور زبان وبیان کی مٹھاس خوب محسوس ہوتی ہے جیسے کہ
——
جاتاہے سوئے چاند ارادہ بدل کے دیکھ
سورج میں کتنی آگ ہے سورج پہ چل کے دیکھ
——
آپ نے اپنی زندگی میں کافی نظمیں ،غز لیں تحریر کی عصر حاضر میں آپ کا ہم عصر نہیں دیکھا،اتنا بلندپایہ شاعر ہونے کے باجود آپ کی انکساری سادہ لوحی فی زمانہ نہیں دیکھی
قوم کو بیدار کرنے کا جذبہ موصوف میں کس درجہ موجود ہے اپ اس قطعہ میں محسوس کرسکتے ہیں :
——
برق حملے سر افلاک بھی کر سکتی ہے
چاند تاروں کی قبا چاک بھی کر سکتی ہے
حوصلہ چاہئے حالات سے لڑنے کے لئے،
کام تلوار کا مسواک بھی کر سکتی ہے۔
——
اس کہانی کا موڑ کچھ بھی نہیں
، ہے طوالت نچوڑ کچھ بھی نہیں
وہ بہتر تھے جن سے پھیلا دین
، ہم بہتر کروڑ کچھ بھی نہیں
——
معاصرین کی آرا
——
تجھکو شہرت جہاں کی اگر چاہئے
ہاں مگر کچھ تو تجھ میں ہنر چاہئے
——
النجم لکھنوی صاحب کے بارے میں لب کشائی کرنا گویا سورج کو چراغ دکھانا ہوگا۔ انجم لکھنوی صاحب کا ایک ایک شعر قوم کی رہنمائی کرتا ہے، انجم لکھنوی صاحب کا مکتب سخن انتہائی وسیع ہے کہ تعارف کا محتاج نہیں آپ کے مکتب فکر سے نکلے ہوئے چند شعراء آل انڈیا مشاعروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ میں نے انجم صاحب سے جب اُن شاعروں کا نام درج کرنے کی درخواست کی تو وہ کہنے لگے ہر کوئی اُستاد بننا چاہتا ہے۔ کسی کا ذکر کر کے خواہ مخواہ اپنے سر تہمت لگانا ٹھیک نہیں ہے دن بھر میں درجنوں کلام بانٹنے والے اس شاعر کی اعلیٰ ظرفی سے ذہن قاصر ہے۔ خاموش رہ کر اُردو کی زندگی کے لئے کیا نہیں کرتا۔ میں نے تو آج تک ایسا شاعر نہیں دیکھا کہ کسی بھی مصرعہ طرح پر فوراً کلام خود بھی کہے اور شاگردوں کی مدد بھی کرے۔ اور شامل محفل بھی رہے۔ گانگی کی دنیا میں انجم لکھنوی کے کلاموں کی شہرت گلوکار الیس رحمان ، شبیر کمار، انور، انورادھا پوڈوال ، سلیم جاوید قوال، حنیف آگرے والے سکندر شادقوال، عبداللطیف حیراں قوال، شمیم شعله قوال، نعیم ہاشمی چشتی قوال، محمد عزیز قوال بہرائچ والے عرفان تلنے اں قوال، رانی کوثر قوالہ اور دیگر گلوکاروں نے آپ کے نغمات گائے ۔ انجم لکھنوئی صاحب کا شکوہ عہد حاضر کے مسلمانوں کو چونکا دینے والا شکوہ ہے جو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے شکوے کی تائید کرتا ہے۔ اہل نظر مطالع کریں اور انجم لکھنوی صاحب کی ذہنیت کو پرکھیں ۔ عین نوازش ہوگی
یوسف رانا مالیگانوی
——
یہ بھی پڑھیں : انجم اعظمی کا یوم پیدائش
——
ایک شاعر یا ادیب اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے ۔ یوں تو دیگر میدانوں میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جیسے تبصرہ نگار یا تاریخ نگار یا تجزیہ نگار جوزمین و مکان کے احوال و کوائف بیان کیا کرتے ہیں لیکن ان سب میں سب سے انفرادی مقام ایک شاعر کا ہوتا ہے کیوں کہ شاعر کسی کی ایما پر کوئی شعر قلم بند نہیں کرتا بلکہ اپنے دل کی آواز پر قلم بند کرتا ہے جس میں سچائی کے سوا کسی دوسری شئے کا گزر نہیں۔ ایک شاعر اپنے اساتذہ سے فیض اٹھاتے ہوئے جس طرح اس کے استاد نے اپنے عہد کی ضروریات کو اشعار کے پیکر میں ڈھالا اسی طرح آج کا شاعر آج کے عہد کی ضروریات و تقاضوں کو قلم بند کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کی زبوں حالی ان کی گمرہی پر قلم اٹھایا اور بہت سی ایسی نظمیں کہیں جس میں ملت اسلامیہ کوحرکت و عمل کا ایک پیغام دیا۔ اسی میں ان کی ایک نظم "شکوہ جواب شکوہ بھی ہے۔ آج کے عہد کا ایک شاعر جو کہ اقبال سے متاثر بھی ہے اور ایک دھڑکتا ہوا دل رکھتا ہے۔ اس نے بھی اقبال کے اس شکوہ اور جواب شکوہ سے متاثر ہو کر اس عہد میں ملت کے مسائل کو سمجھا اور اپنے دل کی آواز کو اسی طرز پر قلم بند کیا جیسے علامہ اقبال نے کیا تھا۔ میری مرادا انجم لکھنؤی صاحب سے ہے جو کہ لکھنو کے ادب کی خوشبو کو سمیٹے عروس البلاد کے ادب کے گیسوؤں کو اس وقت سنوار رہے ہیں۔ انجم لکھنوی نے بھی اس عہد میں ملت کے مسائل کا باریک بینی سے مطالع کرتے ہوئے اللہ سے شکوہ کیا اور پھر اللہ کی طرف سے اسکا جواب بھی دیا۔اور اپنی اس نظم کا نام بھی شکوہ جواب شکوہ “ رکھا۔ ڈاکٹر انجم صاحب کے یہاں بھی ایک سچے مومن کی تڑپ دکھائی دیتی ہے وہ بھی ملت کے احوال و کوائف سے اس قدر رنجیدہ نظر آتے ہیں جس قدرا قبال آتے تھے۔ اور پھر جواب شکوہ میں اس تیور کا مظاہرہ کرتے ہیں جس طرح اقبال نے کیا تھا۔ انجم صاحب کی اس نظم سے ملت کو اپنی خامیوں کا احساس بھی ہو گا ساتھ ہی اس کے تدارک کا نسخہ بھی ملے گا۔ مجھے امید ہے کہ ادب اسلامی میں ان کی یہ نظم ایک سنگ میل قائم کریگی۔
عامل سلطانپوری
صحافی و ناظم مشاعرہ ہلکچر رار دو ایم جی ایس کالج سلطان پور
——
شعر و شاعری یوں تو توفیق الہی ہے اور اس کا بہترین عطیہ خدائے لم یزل جسے چاہے اس نعمت عظمی سے نواز دے مگر ساتھ ہی ذوق شاعری اس فن میں چار چاند لگادیتی ہے۔ البتہ شاعری کے بھی دو پہلو ہوتے ہیں یعنی شاعری صالح بھی ہوتی ہے اور غیر صالح بھی۔ اب وہ شاعر کے ذوق طبع پر منحصر ہے۔ جیسا شاعر کا مزاج ہوگا ویسی شاعری ہوگی۔
زیر نظر کتاب "شکوہ جواب شکوہ جومحترم انجم لکھنوی صاحب کی ہے انھوں نے بڑی عرق ریزی سے فن ادب کی خدمت کی ہے۔ ان کے کلام میں بڑی چاشنی ہے انھوں نے کسی ایک صنف شاعری میں محدود نہ رہ کر جملہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ انھوں نے حمد ،نعت اور غزل پر بھر پور لکھا ہے۔ جہاںنسبت سرکار علیہ الحیۃ والثنا کا بخوبی اظہار ہے وہیں رحمت الہیہ پر کامل بھروسہ بھی ان کی شاعری کا طرہ امتیاز ہے۔ انھوں نے بڑی بے باکی سے حالات حاضرہ پر خامہ فرسائی بھی کی ہے۔ جس میں طنز و مزاح کا پہلو بخوبی نمایاں ہے۔ علامہ اقبال سے پہلے فن شاعری میں شکوہ کا رواج نہیں تھا اور نہ ہی ان کے بعد کسی نے اس موضوع پر قلم اٹھایا مگر انجم صاحب نے علامہ صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی یاد تازہ کردی۔ علامہ کی طرح انھوں نے بھی شکوہ میں کسر نہیں چھوڑی ہے اور نہ ہی جواب شکوہ کو تشنہ چھوڑا ہے۔ انکی شاعری میں ہر شعر فن کلام کے دائرے میں ہے کہیں بھی اشعار کے نقائص کا گزردکھائی نہیں دیتا ہے۔ مکمل فن کے حدود میں ہر شعر دل کی گہرائیوں سے نکلتا محسوس ہوتا ہے۔ انھوں نے قوم وملت کی ترجمانی کا بھی حق خوب ادا کیا ہے۔ وعظ ونصیحت کے ساتھ نہایت حکیمانہ انداز میں سرزنش بھی کی ہے۔
انھوں نے غزل کو صرف حسن و عشق کے پیرائے میں نہیں ڈھالا ہے بلکہ سماجی حالات کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ ان کے اشعار میں قوم کا درد اور اس کا مداوا بخوبی پنہاں ہے ہر طرح سے انھوں نے قوم کو ایک آفاقی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ مولی تعالی اس کوشش کو بار آور فرمائے۔ ان کا قلم بڑ ا مشاق ہے ان کی شاعری دیکھ کر پرانے اور مشہور زمانہ شعراء کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ ان کے لئے بس یہی دعا ہے کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
والسلام على من اتبع الهدى
راقم : عبد الوہاب عزیزی امام و خطیب مسجد فیضان رضا اندر نگر بینگن واڑی گوونڈی ممبئی ۴۳
——
یہ بھی پڑھیں : مجھ کو حیرت ہے کہ میں کیسے حرم تک پہنچا
——
انجم لکھنوی صاحب سے قریب دس سال پہلے میری قائم کردہ بزم ”بزم عزیز بارہ بنکی کی ایک طرحی نششت میں اتفاقاً ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا پھر اس کے بعد کافی عرصہ کے بعد تیمور کی ایک ادبی محفل میں ملاقات ہوئی تو پرانی یادیں تازہ ہوگئیں ۔ آپ کی شعری صلاحیت کا تو میں پہلی ہی ملاقات میں قائل ہوگیا تھا، لیکن اس ملاقات میں انہیں خوب خوب سنا اور یہ احساس ہوا کہ یہ معمولی فنکار نہیں ہیں، لیکن آج میں جب بمبئی میں ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوا تو انہوں نے شکوہ جواب شکوہ کا مسودہ دیا۔ اور میں نے اس کا بغور مطالعہ کیا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ علامہ اقبال کے بعد اگر کسی نے یہ جسارت کی ہے تو وہ انھیں کے ہم نام ڈاکٹر محمد اقبال ( انجم لکھنوی) ہیں۔ موصوف کی کوشش کہاں تک کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ میں نہیں قارئین کرام کریں گے، میں تو بس انجم صاحب کے لئے اتنا کہونگا کہ اللہ کرے زور قلم اور ترقی کرتی رہے۔
ناچیز نصیر انصاری بارہ بنکوی ، اتر پردیش
——
انجم لکھنوی ایک معتبر اور مکمل شاعر ہیں الفاظوں نے گو یا فکر انجم کے تلوے دھو کر پی لئے ہوں تبھی تو وہ انجم لکھنوی کے حضور میں دست ادب جوڑے کھڑے رہتے ہیں انھیں اصناف تغزل پر یکساں عبور حاصل ہے انکی شاعری اپنی نفسیات اپنے رموز و علایم اپنی تراکیب اور اپنے لب ولہجہ کی بنا پر منفرد ہے۔ انکے طرز اظہار میں کوئی تصنع اور نمائش دیکھنے کو نہیں ملتی ان کے سینے میں احساسات و جذبات کا ایک دریا موجزن ہے انکی شاعری جمال آفریں کیفیات کی حامل بھی ہے اور وجدانی تجربات کی آئینہ دار بھی نیز سماجی اخلاقی اقدار اور تہذیب و تمدن و جمالیاتی اوصاف سے مالا مال بھی اور باخبر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال ثانی انجم لکھنوی کی شاعری میں علامہ اقبال
کی خاک پا کی قدم بوسی کرتی ہوئی فکر ملتی ہے اور آپ میں علامہ اقبال کا نقیب بنے کی پوری توانائی موجود ہے۔ اجم لکھنوی نئے تیور اور نئے آہنگ کے شاعر ہیں زبان کو برتنے کا سلیقہ انھیں خوب آتا ہے ان جملوں کا انتساب انجم لکھنوی کی نظم شکوہ پڑھکر صحیح اور سچا لگے گا۔ چاندنی، آبشار، دھوپ، چاند، ستارے، سورج، پھول، پتیاں ،تلی، شفق، پرندے، شجر ، خواب، رات کا جل ، حور و غلماں، برزخ ، بہشت، دوزخ ، آنکھ، آگ ، آنچل ، دریا، شبنم ، شعلہ، کوئل کی کوکو، مرغ کی بانگ، اسکے مخصوص شعری تلازمات ہیں۔ جنکے استعمال سے روشنی کی نئی کر نیں پھوٹتی ہیں جو انھیں انکی نظم "شکوہ” کے موجد ہونے کے سبب اقبال ثانی کے لقب کا حقدار بجھتی ہیں ۔ میں اپنے دعائیہ اشعار کے اور نیک خواہشات کے ساتھ اقبال ثانی انجم لکھنوی کو انکی بے باک نظم شکوہ تحریر کرنے پر دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ اور دعا کرتا ہوں کہ اج لکھنوی کو خدا مفہوم سے عاری ہشمشیر بے نیام صفت درباری مفتیوں کی قلم سے محفوظ رکھے اور اس بے مثل بچی کاوش کی دنیا کے عرض وطول میں پزیرائی ہو۔ آمین ثم آمین
راقم الحروف سید انتظار عالم ( فہم اعظمی )
——
یہ بھی پڑھیں : فنا ہو جائے گی دنیا مہ و انجم نہیں ہوں گے
——
حجم لکھنوی جن کا نام محمد اقبال خان ہے، میرے ہم وطن اور میرے مخلص دوست ہیں۔ آپ عرصہ دراز سے بسلسلۂ حصول معاش ممبئی میں مقیم ہیں، بچپن ہی سے آپ کو شعر و شاعری سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا اور اس جنون کو ممبئی کی بود و باش نے پایہ تکمیل تک پہونچایا۔ ہم عصر شعراء میں اپنے منفر دلب و لہجے اور بلند فکری پرواز کے سبب انجم لکھنوی ایک نمایاں اور اہم نام ہے۔ آپ کو علم عروض پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ آپ کے اشعار میں بلا کی تازگی اور شگفتگی جابجا اپنے ہونے کا جواز پیش کرتی ہے۔ اصناف سخن کی ہر صنف میں آپنے طبع آزمائی کی ہے، غزل، نعت، قصیده، رباعی، نظم ، گیت ، سلام ، غرض یہ کہ ہر شعری میدان میں آپ نے اپنے احبب قلم کو روانی اور ثابت قدمی سے دوڑایا ہے، وہ بھی کامیابی اور کامرانی کے ساتھ۔ انجہ لکھنوی سے ملنے کے بعد آپ کو محسوس ہوگا کہ واقعی آپ ایک شاعر سے ملے ہیں۔ وہ کھوئے ، کھوئے ، اپنےاندر کسی سے نبرد آزما نظر آئیں گے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں ، مضمون آفرینی ، اور بندشِ الفاظ کی تگ و دو میں الجھے نظر آئیں گے۔
انجم لکھنوی گوناں گوں خوبیوں کے مالک ہیں، شرافت نفسی اور اعلیٰ انسانی قدروں کے پاسدار اور امین ہیں، اور یہ سب انہیں ورثہ میں ملا ہے۔ حق گوئی اور صاف گوئی ان کی فطرت ہے، سی پائیدار ہے اور جھوٹ وقتی “ یہ ان کا قول ہے!
شکوہ – جواب شکوہ ان کی دوسری کتاب کا نام ہے، اس سے پہلے ان کی ایک کتاب ، عظمت ماں“ شائع ہو کر سند قبولیت خاص و عام پا چکی ہے، شکوہ جواب شکوہ، ایک طویل نظم میں فکر اور انداز بیان بینیت موضوع اور پرشکوہ الفاظ کی ترتیب، رواں دواں بحر کی غنائیت ، فکری اسالیب کی طمانیت ، سلیس اور آسان زبان میں شاعری کے جملہ لوازمات کا احترام، مذہبی عقائد، واجبات کو محوظ رکھ کر شعری روش پر کامرانی کے ساتھ دعوت فکر دیتا ہے، اس نظم کا ایک ، ایک شعر قاری کو بجس کی وادیوں کی سیر کراتا ہے۔ شعری محاسن کا التزام اس نظم کا خاصہ ہے، الفاظ کی بندش اس کا نمایاں وصف ہے۔
شکوہ جواب شکوہ، جیسی نظم لکھ کر انجم لکھنوی نے ایک کارنامہ انجام دیا ہے جو ہر مکتب فکر کے قاری کے ذہن کو جھنجھوڑ سکتی ہے اور اسکی زبان سے شاعر کیلئے داد تحسین کے الفاظ نکل سکتے ہیں۔ میں بار گاه رب العزت میں دعا گو ہوں کہ انجم لکھنوی کی یہ کتاب "شکوہ – جواب شکوہ شائع ہو کر مقبول خاص و عام ہو، اور خدائے برتر انجم کوشاد و آباد رکھے کہ انھیں ابھی بہت کچھ شعر وادب کی خدمت کرنا ہے۔ آمین ۔ رحمان
عباسی مستان روڈ تحصیل فتح پور بارہ بنکی (یوپی)
——
منتخب کلام
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
حصارِ دہر ہے ذکر خدا سنبھالے ہوئے
کبھی سنبھلتا نہیں زلزلہ سنبھالے ہوئے
کسی ستون پہ ٹھہراؤ آسماں کا نہیں
مرے خدا کی ہے اب تک رضا سنبھالے ہوئے
وہ لفظ کُن سے جو چاہے وہ خلق فرمائے
رسول پاک ہیں اُس کی عطا سنبھالے ہوئے
یہ چاند تارے نظام فلک زمین و زماں
خدا کے بعد ہیں صل علیٰ سنبھالے ہوئے
رسول پاک گئے عرش پر شب معراج
ندائے حق تھی مکمل فضا سنبھالے ہوئے
خیال محو زیارت تھے جسم گھر میں رہا
اڑا کے لے گئی مجھ کو صبا سنبھالے ہوئے
عمل کی راہ سے انجم بھٹک نہیں سکتا
ہیں ہر قدم پہ شہہِ انبیاء سنبھالے ہوئے
——
یہ بھی پڑھیں : ماہِ تاباں سے بڑھ کر ہے روشن جبیں تجھ سا کوئی نہیں تجھ سا کوئی نہیں
——
مناجات
——
یا مرے مولا مجھے اپنے کرم کی بھیک دے
بھیک دے مجھ کو شہنشاہ اتم کی بھیک دے
علم و فن میں برکتیں دے از طفیل پنجتن
مالک لوح و قلم لوح و قلم کی بھیک دے
رزق دے رزاق کر میری دعائے دل قبول
ابن عبد اللہ کے جاہ و حشم کی بھیک دے
سنگ اسود چومنے کی ہے مجھے خواہش بہت
حج کی دے توفیق اور شانِ حرم کی بھیک دے
پی لیا جام شہادت اصغر بے شیر نے
اس حضرت شبیر کے اس رنج و غم کی بھیک دے
کربلا کے بعد ہے مشک سکینہ جس کے ساتھ
غازی ملت کے اس نوری علم کی بھیک دے
یا خدا ثابت قدم رکھ مجھ کو راہ دین پر
سرور کونین کے نقش قدم کی بھیک دے
جو غم امت میں رویا رات بھر سویا نہیں
اپنے اس محبوب کی تو چشم نم کی بھیک دے
اک ترا محبوب ہے تخلیق دنیا کا سبب
تو نے جو قرآں میں کھائی اس قسم کی بھیک دے
غیر کے در پر نہ جائے گا یہ انجمؔ لکھنوی
خالق کل مالک عرب و عجم کی بھیک دے
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
عرش کے مسند نشیں اور وارث لوح و قلم، شاہ اسم
والی کون و مکاں شاہ عرب شاہ عجم، شاہ اسم
جسم کا سایہ نہ ثانی باخدا سب سے جدا نور خدا
انبیا کے صف میں بیشک محترم ہیں محترم ، شاہ اسم
آدم و یحییٰ زکریا لوط و یونس فجر گل ، ختم الرسل
مرحبا صد آفریں صد آفریں حق ذی حشم ، شاہ اسم
امتی ہونے کی مانگی تھی دعا عیسی نے بھی ، ہو کر نبی
آپ کے ذاکر رہے فضل خدا وہ دم به دم ،شاہ اسم
دامن امید اب بھر دیجئے بھر دیجئے ، کچھ کیجئے
مشکلیں در پیش ہیں اور ساری امت چشم نم ، شاه اسم
ہو کرم کی اک نظر آقا ادھر آقا ادھر ، شام و سحر
کافروں کے بڑھ گئے جور و جفا ظلم و ستم ، شاہ امم
آپ ہیں اللہ کے پیارے نبی سچ ہے ہی ، ہم امتی
حشر میں رکھئے گا انجمؔ کا بھرم جانِ کرم ، شاہ امم
——
آنکھ وہ گھر ہے کہ جس میں رہیں چھپ کر آنسو
غم جو دستک دے تو آجاتے ہیں باہر آنسو
برف کی طرح پکھل جاتا ہے فطرت ان کی
خشک ہو جائیں تو بن جائیں گے پھر آنسو
ضبط غم ساتھ اگر چھوڑ دے یہ بھی ہوگا
ایک ہی رات میں بھر دیں گے سمندر آنسو
کتنی غیرت ہے کہ ہو جاتے ہیں پانی پانی
آپ خود دیکھ لیں انگلی سے اٹھا کر آنسو
تم یہ کہتے ہو کہ اب چھوڑ دو رونا دھونا
میں یہ کہتا ہوں کہ ہے میرا مقدر آنسو
میں نہ کیونکر انھیں الماس کے موتی سمجھوں
میری آنکھوں میں جواں ہوتے ہیں پل کر آنسو
جانے کیا اہل چمن پر ہے مصیبت انجمؔ
خون کی شکل میں روتے ہیں کبوتر آنسو
——
دل یادوں کا محل بنا ہے دیوار و در روتے ہیں
شام ڈھلے اسلاف کے سائے سینے لگ کر روتے ہیں
آبلہ پائی دیکھنے والو کیا ہوگا احساس تمہیں
مس ہوتے ہیں جب چھالوں سے راہ کے کنکر روتے ہیں
بیتابی کیا شئے ہوتی ہے رات میں آکر دیکھو تو
گھر کے اندر رونے والے گھر کے باہر روتے ہیں
برق تپاں کا ظلم ہے ایسا سب کا شانے راکھ ہوئے
مسجد کی مینار پہ بیٹھے آج کبوتر روتے ہیں
ہم سے بغاوت کرنے والوں کی حالت کچھ ایسی ہے
رات گئے احساس کے دامن میں وہ چھپ کر روتے ہیں
صرف میرے حصے میں تلچھٹ اسکو صراحی بھر کے شراب
تشنہ لبی کو دیکھ کے میخانے کے ساغر روتے ہیں
انجمؔ یادوں کے میلے میں گھومنے جانا ٹھیک نہیں
گھر کا رستہ بھولنے والے بیٹھ کے اکثر روتے ہیں
——
گھر کسی کا نہ اجاڑو یہ بسا رہنے دو
اور آنگن میں فرشتوں کی صدا رہنے دو
بھول جائیں نہ پرندے کہیں گھر کا رستہ
پیٹر کاٹو نہ کوئی، پیٹر لگا رہنے دو
سر اٹھائے گا تو پہنچے گا جنوں کی حد تک
راکھ کے ڈھیر میں شعلے کو دبا رہنے دو
میں نے مانا ہے ہواؤں سے تمہارا رشتہ
دل کے فانوس میں روشن تو دیا رہنے دو
مدتوں بعد یہ ملتا ہے خزانہ انجمؔ
راز جو دل میں چھپا ہے وہ چھپا رہنے دو
——
یہ چلتے پھرتے مٹی کے پہلے کہاں کے ہیں
مسجد سے واسطہ ہے نہ کوئے بُتاں کے ہیں
چھتری کو آپ اپنا محافظ سمجھ گئے
طوفان سر سے اونچے ابھی امتحاں کے ہیں
ممکن نہ تھا فساد مگر کیا بتائیں ہم
کچھ لوگ اپنے شہر میں ناقص زباں کے ہیں
نفرت کی آندھیوں نے اُڑایا ہے یوں مزاق
تنکے تمام باغ میں اک آشیاں کے ہیں
اس واسطے میں کرتا ہوں پھر سے گفتگو
عادی یہاں کے لوگ تو سر نہاں کے ہیں
تہذیب کا لباس مسکتا چلا گیا
ترپائی کرنے والے یہ آخر کہاں کے ہیں
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتا نہیں کوئی
کتنے ذلیل لوگ میرے کارواں کے ہیں
انجمؔ یہی تو گھر میں اجالا کریں گے بس
جلتے ہوئے چراغ جو امن و اماں کے ہیں
انجمؔ یادوں کے میلے میں گھومنے جانا ٹھیک نہیں
گھر کا رستہ بھولنے والے بیٹھ کے اکثر روتے ہیں
——
گھر کسی کا نہ اجاڑو یہ بسا رہنے دو
اور آنگن میں فرشتوں کی صدا رہنے دو
بھول جائیں نہ پرندے کہیں گھر کا رستہ
پیٹر کاٹو نہ کوئی، پیٹر لگا رہنے دو
سر اٹھائے گا تو پہنچے گا جنوں کی حد تک
راکھ کے ڈھیر میں شعلے کو دبا رہنے دو
میں نے مانا ہے ہواؤں سے تمہارا رشتہ
دل کے فانوس میں روشن تو دیا رہنے دو
مدتوں بعد یہ ملتا ہے خزانہ انجمؔ
راز جو دل میں چھپا ہے وہ چھپا رہنے دو
——
یہ چلتے پھرتے مٹی کے پہلے کہاں کے ہیں
مسجد سے واسطہ ہے نہ کوئے بُتاں کے ہیں
چھتری کو آپ اپنا محافظ سمجھ گئے
طوفان سر سے اونچے ابھی امتحاں کے ہیں
ممکن نہ تھا فساد مگر کیا بتائیں ہم
کچھ لوگ اپنے شہر میں ناقص زباں کے ہیں
نفرت کی آندھیوں نے اُڑایا ہے یوں مزاق
تنکے تمام باغ میں اک آشیاں کے ہیں
اس واسطے میں کرتا ہوں پھر سے گفتگو
عادی یہاں کے لوگ تو سر نہاں کے ہیں
تہذیب کا لباس مسکتا چلا گیا
ترپائی کرنے والے یہ آخر کہاں کے ہیں
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتا نہیں کوئی
کتنے ذلیل لوگ میرے کارواں کے ہیں
انجمؔ یہی تو گھر میں اجالا کریں گے بس
جلتے ہوئے چراغ جو امن و اماں کے ہیں