آسرے توڑتے ہیں، کتنے بھرم توڑتے ہیں

حادثے دل پہ مرے دُہرا ستم توڑتے ہیں

آستینوں میں خداوند چھپا کر اتنے

لوگ کن ہاتھوں سے پتھر کے صنم توڑتے ہیں

اُٹھ گئی رسمِ صدا شہر طلب سے کب کی

اب تو کشکولِ ہوس بابِ کرم توڑتے ہیں

جھوٹی تعبیر کے آرام کدے سے تو نکل

خواب کتنے تری دہلیز پہ دم توڑتے ہیں

ہم نے اُس شہر میں بھی پاسِ وفا رکھا ہے

قیس و فرہاد جہاں روز قسم توڑتے ہیں

پڑھنے والے پڑھا کرتے ہیں ترے چہرے کو

لکھنے والے ترے قدموں میں قلم توڑتے ہیں

تیرا اعجاز کہ ہم تیری اسیری کے لئے

دامِ صد حلقۂ دینار و درم توڑتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]