آسمانوں کو سنبھالوں تو زمیں گرتی ہے

میں زمیں تھام کے رکھوں تو فلک جاتا ہے

پھر ترے بخت میں جو ہو سو وہی صورت ہے

راستہ دشت کے آغاز تلک جاتا ہے

ساقیِ عشق ، ہر اک بار ہی دریا دل تھا

عمر کا جام ہی چھوٹا ہے چھلک جاتا ہے

دید کچھ یوں بھی تہی دست ہوئی جاتی ہے

ہر نظارے میں ترا عکس جھلک جاتا ہے

ایک ہی نقش کی تصویر کشی جاری ہے

دل سنوارے ہی تری نوک و پلک جاتا ہے

جس گھڑی شمع ، سرِ بزمِ جنوں بجھ جائے

شب کا آنچل ہے کہ سینے سے ڈھلک جاتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]