آپ سے پہلے جہانِ خشک و تر کچھ اور تھا

آپ کے آتے ہی عالم سر بسر کچھ اور تھا

نور در آغوش یوں تو روز ہوتی تھی سحر

آپ جب آئے تو اندازِ سحر کچھ اور تھا

بدوؤں کو کر گئی جو آشنا تہذیب سے

وہ نظر کچھ اور اسلوبِ نظر کچھ اور تھا

ایک لمحے میں سمٹ آئے مکان و لامکاں

سائرِ اسراء کا اندازِ سفر کچھ اور تھا

طورِ سینا پر تجلی کا تھا عالم اور کچھ

ارضِ طیبہ میں تجلی کا اثر کچھ اور تھا

جب تک اُن کے آستانِ پاک پر پہنچا نہ تھا

میری نظروں میں جمالِ سنگِ در کچھ اور تھا

باوضو آنکھیں ہوئیں اور دل ہوا محوِ درود

راہِ طیبہ میں ابھی میرا سفر کچھ اور تھا

دشمنِ جاں نے بھی پائی جس کے سائے میں اماں

رازؔ ان کا سائبانِ در گزر کچھ اور تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]