آپ سے پہلے جہانِ خشک و تر کچھ اور تھا
آپ کے آتے ہی عالم سر بسر کچھ اور تھا
نور در آغوش یوں تو روز ہوتی تھی سحر
آپ جب آئے تو اندازِ سحر کچھ اور تھا
بدوؤں کو کر گئی جو آشنا تہذیب سے
وہ نظر کچھ اور اسلوبِ نظر کچھ اور تھا
ایک لمحے میں سمٹ آئے مکان و لامکاں
سائرِ اسراء کا اندازِ سفر کچھ اور تھا
طورِ سینا پر تجلی کا تھا عالم اور کچھ
ارضِ طیبہ میں تجلی کا اثر کچھ اور تھا
جب تک اُن کے آستانِ پاک پر پہنچا نہ تھا
میری نظروں میں جمالِ سنگِ در کچھ اور تھا
باوضو آنکھیں ہوئیں اور دل ہوا محوِ درود
راہِ طیبہ میں ابھی میرا سفر کچھ اور تھا
دشمنِ جاں نے بھی پائی جس کے سائے میں اماں
رازؔ ان کا سائبانِ در گزر کچھ اور تھا