اردوئے معلیٰ

آہٹ ہوئی کہ آمدِ سرکار ہو گئی

گل کھل گئے تو روح بھی سرشار ہو گئی

 

رخصت ہوئی جو تیرگی جگمگ ہوئی فضا

کُھل کر پھر آج بارشِ انوار ہو گئی

 

ہم عاصیوں کے بگڑے مقدر سنور گئے

ہم پر نگاہِ سیدِ ابرار ہو گئی

 

مرجھا چکا تھا غم سے مری زیست کا شجر

اس کی ہر ایک شاخ ثمر بار ہو گئی

 

یادِ نبی کو جب سے ہے دل میں بسا لیا

بے رنگ زندگی گل و گلزار ہو گئی

 

جب بھی تڑپ کے عرض کی آقا بلایئے

پھر ناز تیری حاضری ہر بار ہو گئی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ