ائے بدرکاب عمر تجھے کیا خبر کہ ہم

پچھلی مسافتوں میں کہیں گر کے کھو چکے

ائے تازگیِ رُوئے سحر، دیر ہوگئی

ہم شب گزیدگان اندھیرے میں سو چکے

ائے وائے امتدادِ زمانہ کہ آج ہم

لوحِ خیالِ یار سے معدوم ہو چکے

ائے ناشناس عہدِ ہوس پوش ، آ کہ ہم

اپنے جوان مرگ تقدس کو رو چکے

بس چھ برس میں نصف صدی بیتنے کو

ائے شامِ ہجر ، ہم کئی سورج ڈبو چکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]