ائے ریگِ ناشناس ، ہمیں ڈھانپ لے کہ ہم

اک بدحواس عمر کی عجلت میں کھو گئے

آنکھوں کی دلدلوں میں عجب معجزہ ہوا

کتنے ہی نقشِ پا تھے کہ محفوظ ہو گئے

کب تک گماں کی راہ گزر پہ قیام ہو

جو باعثِ قیام تھے وہ لوگ تو گئے

آخر فنا کیا ہے کمالات نے ہمیں

ہم وسعتِ خیال میں معدوم ہو گئے

لنگر اٹھا لیے ہیں کہ امید اٹھ گئی

ہم بادبان اوڑھ کے عرشے پہ سو گئے

اک جی ہے شاعری کا جو ہلکا نہیں ہوا

نوحہ گراں ہزار یہاں خون رو گئے

روئیدگی میں نیند کو رستہ نہیں ملا

تم چشمِ خواب ساز میں اشعار بو گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]