اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف کلاسیکل شاعر سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری ​کا یومِ پیدائش ہے

 

سید خورشید علی ضیاء(پیدائش: 1919ء – وفات: 2001ء)
——
سید خورشید علی ضیاء عزیزی کے والد کا نام سید محمود علی ابن شمس الدین تھا ۔
آپ 1919ء میں دائرہ کھنڈیلہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ اپنے دونوں بھائیوں سید ارشاد الدین اور سید کریم الدین سے چھوٹے تھے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم دایرہ میں ہی حاصل کی اور پھر مزید تعلیم کے لیے جے پور کے مسلم ہائی اسکول میں داخل ہو گئے ۔
1939 ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا اور اسی اسکول میں آپ نے درس و تدریس شروع کر دی ۔
ان ہی دنوں میں آپ کی ملاقات راجھستان جے پور کے مشہور شاعر حافظ یوسف علی عزیز سے ہو گئی اور آپ کے اندر کا سویا ہوا شاعر جاگ گیا ۔
جناب یوسف علی عزیز صاحب شعرو سخن میں مشہور شاعر رضا دہلوی صاحب سے سلسلہء تلمذ رکھتے تھے جو مرزا غالب کے تلامذہ میں سے تھے اور آگاہ تخلص فرماتے تھے۔
رضا دہلوی آگاہ صاحب کا نمونہء کلام معروف کتاب تلامذہء غالب میں موجود ہے ۔ سید خورشید علی ضیاء بھی اسی نسبت سے ضیاء عزیزی جے پوری کہلاتے تھے ۔
پھر آپ نے سخنوری میں قدم رکھا اور استادِ محترم سے اصلاح لینا شروع کر دی ۔ جلد ہی آپ جے پور کے مشاعروں میں شریک ہونے لگے اور ان مشاعروں کی لازم و ملزوم شخصیت بن گئے ۔
پھر آپ نے سخنوری میں قدم رکھا اور استادِ محترم سے اصلاح لینا شروع کر دی ۔ جلد ہی آپ جے پور کے مشاعروں میں شریک ہونے لگے اور ان مشاعروں کی لازم و ملزوم شخصیت بن گئے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : شمس الرحمٰن فاروقی کا یومِ وفات
——
1947 ء میں پاکستان بننے کے بعد آپ نے تمام اہل و عیال کے ہمراہ پاکستان ہجرت فرمائی اور شہداد پور میں مستقل قیام فرمایا ۔
جلد ہی محکمہ ریونیو میں ملازم ہو گئے ۔ دورانِ ملازمت آپ نے زیادہ عرصہ سانگھڑ میں گزارا ۔ 35 سال ملازمت کرنے کے بعد آپ نے ریٹائرمنٹ لے لی ۔
سید خورشید علی ضیاء کی سخنوری کا چرچا ضلع سانگھڑ اور حیدر آباد تک پہنچ گیا تھا ۔ آپ کے حلقے میں کوئی بھی ادبی نشست آپ کے بنا ادھوری اور پھیکی ہوتی تھی ۔
آپ کی سخنوری کے جوہر ہر ادب شناس پر عیاں تھے ۔ لوگ مشاعروں میں شدت سے آپ کی باری کا انتظار کرتے تھے ۔
جب آپ اپنا کلام سناتے تو تو لوگ ہر شعر کے بعد مکرر مکرر کی آوازیں لگاتے اور ایک کلام سنانے کے بعد لوگوں کے اصرار پہ دوسرا اور تیسرا کلام سناتے ۔
آپ کا کلام عام فہم اور حقیقت کے قریب ترین ہوتا تھا ۔
آپ بزرگانِ دین اور مرشدوں سے بڑی عقیدت اور محبت رکھتے تھے ۔ اس کا ثبوت آپ کی نعتیں ، منقبتیں ، شہادت نامہ اور مناجاتیں ہیں ۔ ہر جلسہ اور میلاد کی محفل آپ کے کلام سے معتبر اور روح پرور ہو جاتی تھی ۔
آپ کے منظوم میں واقعے کا تسلسل ہوتا تھا ، خاص طور پہ شہادتِ میاں خوند میر جب آپ بیان فرماتے تو حاضرینِ محفل کی آنکھوں کے سامنے شہادت کا سارا نقشہ آ جاتا تھا اور آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے تھے ۔
آپ بہت سادہ ، شریف النفس ، شائستہ اور خالص ادبی انسان تھے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : سن لو میری اِلتجا اچھے میاں
——
آپ کا وصال 2001 ء میں ہوا اور آپ حضیرہ شہداد پور میں دفن ہیں ۔
——
حوالہ جات
کتاب : اشجار ، تحقیق و تایف : سید عبد الباقی
شائع شدہ : 2018 ، صفحہ نمبر 227 ، 228
——
منتخب کلام
——
یہ قلب و نظر ہے برائے مدینہ
نثارِ مدینہ ،فدائے مدینہ
مدینے کے دن ہوں مدینے کی راتیں
خدا دیکھیے ! کب دکھائے مدینہ
وہ ذکر نبی ہو کہ ذکرِ خدا ہو
مجھے ہر طرح یاد آئے مدینہ
مقام آپ کا عرشِ اعظم سے آگے
زہے شانِ خیر الورائے مدینہ
مدینہ مدینہ مدینہ مدینہ
مجھے ہر طرح یاد آئے مدینہ
مری زندگی کا یہی مدعا ہے
نبی پر درود اور ثنائے مدینہ
یہی نام میرا یہی ہے تخّلص
غلام شہِ دوسرائے مدینہ
الٰہی تو ہی تو نورِ ارض و سما ہے
ضیاؔ کو دکھا دے ضیائے مدینہ
——
خار میری حسرتوں کے آپ کے جلووں کے پھول
یہ بہم ہو جائیں تو ، اک گلستاں ہو جائیگا
——
میں شہرِ دوستی ہوں مرے دوستو مجھے
آباد کر گیا کوئی ویران کر گیا
——
بڑی تاخیر سے تیرا پیامِ بے رخی آیا
خزاں کے واسطے ترسی بہار ِ آرزو برسوں
——
آرائش جمال سے پہلے ترا جمال
یہ سادگی کی آگ ہے وہ بانکپن کی آگ
——
جو مرا ہمنوا نہیں ہوتا
وہ ترے شہر کا نہیں ہوتا
شاخ پر ہیں ہرے بھرے پتّے
پھول لیکن ہرا نہیں ہوتا
آج بھی آہنی جنوں کا حق
پتھروں سے ادا نہیں ہوتا
کہکشاں کو نچوڑ کر پی لیں
جام پھر بھی جُدا نہیں ہوتا
منصفی میں دخیل ہیں کچھ لوگ
اس لئے میں بُرا نہیں ہوتا
وہ بلاتے نہیں کبھی مجھ کو
پاس جب آئینہ نہیں ہوتا
ہاتھ سونا نگاہ چاندی کی
پاس امیروں کے کیا نہیں ہوتا
وہ صدائے طلب سے ڈرتے ہیں
اِک دریچہ بھی وا نہیں ہوتا
ہے یہ ذوقِ نظر کی بات ضیاؔ
کوئی زیرِ ردا نہیں ہوتا​
——
ماہتابی ہیں مرے رنج و محن پانی میں
اشکِ غم ہیں کہ ستاروں کا چمن پانی میں
جن خلیجوں سے گذرتی ہے ضیا دیتی ہے
آپ کے عکس کی ہلکی سی کرن پانی میں
موسمِ گُل میں یہی گل ہیں یہی تارے ہیں
اشکِ پیہم ہیں کہ پانی کی کرن پانی میں
ناخدا حق و اناالحق کی وضاحت کے لیے
بادبانوں کو کہوں دار و رسن پانی میں
ایسی برسات کہاں ایسے کہاں قلزم و یم
کِس نے دیکھا ہے ضیاؔ سیم بدن پانی میں
——
صراحی سر نگوں ، مینا تہی اور جام خالی ہے
مگر ہم تائبوں نے نیّتوں میں مے چھپالی ہے
کبھی اشکوں کی صورت میں کبھی آہوں کی صورت میں
نکلنے کی تمنّا نے یہی صورت نکالی ہے
یہی ڈر ہے کہیں گلچیں نہ کہہ دیں یہ جہاں والے
کبھی صحنِ چمن سے پھول کی پتّی اٹھا لی ہے
ابھر آئی وہاں محراب تیرے آستانے کی
جہاں فرطِ محبّت سے جبیں ہم نے جھکا لی ہے
کہیں ایسا نہ ہو بھولے سے جنّت میں چلا جاؤں
گلی فردوس کی تیری گلی کے ساتھ والی ہے
ضیاؔ اس خواب کی تعبیر بھی اک خواب ہے اپنا
پسینہ آ گیا جب اس کے دامن کی ہوا لی ہے​
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ