اب مجھے درد کا احساس بھی کم ہوتا ہے
اب مرا ضبط بہت دور مجھے لے آیا
عشق کب تھا کہ جھلسنے کی ہوس تھی مجھ کو
یہ مرا شوق سرِ طور مجھے لے آیا
موت کا رقص بھلا کون دکھا سکتا تھا
ہجر جب ہو گیا مجبور مجھے لے آیا
تو نے ہر بار کواڑوں کو مقفل رکھا
اور یہ دل کہ بدستور مجھے لے آیا
خواب گر مجھ کو سمجھتا ہے مری جان کہ تو
خؤاب جب جب ہوئے کافور مجھے لے آیا