ادب سے سر جھکا، بیٹھے ہوئے ہیں

حضورِ کبریا بیٹھے ہوئے ہیں

خدا کے رُوبرو بندے خدا کے

بفیضِ مصطفیٰ بیٹھے ہوئے ہیں

خدا کے ساتھ ہی معراج کی شب

حبیبِ کبریا بیٹھے ہوئے ہیں

یہاں سب انبیا و اولیا بھی

اُٹھا دستِ دعا بیٹھے ہوئے ہیں

وہ مجذوب و قلندر سر بکف ہیں

جو عاشق با خدا بیٹھے ہوئے ہیں

شہیدوں کا نگہباں خود خدا ہے

جو اپنے سر کٹا بیٹھے ہوئے ہیں

خدا و مصطفیٰ سے خیر لینے

ظفرؔ جیسے گدا بیٹھے ہوئے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]