از راہِ دلبری ہمیں آنے دو اپنے پاس

کچھ دیر کو سہی ہمیں آنے دو اپنے پاس

رسموں کے زَر محل میں مقید ہو دیر سے

در کھولو اب کوئی ہمیں آنے دو اپنے پاس

احساس کے ڈگر سے اُتارو خیال میں

ایسے کبھی کبھی ہمیں آنے دو اپنے پاس

مل بیٹھ کر کریں گے علاجِ غمِ حیات

اے جانِ زندگی ہمیں آنے دو اپنے پاس

شاید تمہارے شہر سے گزریں نہ پھر کبھی

پھیرا ہے آخری ہمیں آنے دو اپنے پاس

کسبِ ہنر و اکلِ ضرورت کے سلسلے

طے ہو چکے سبھی ہمیں آنے دو اپنے پاس

مشعل بکف ہیں کب سے فصیلوں پہ منتظر

لائے ہیں روشنی ہمیں آنے دو اپنے پاس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]