اس طُرفہ جُود و لطف و عنایت پہ میں نثار
حاجت اِدھر ہے ایک تو بخشش اُدھر ہزار
تارِ نَفَس اِدھر ، اُدھر الطاف کی قطار
بے حد مری خطائیں ، کرم اس کے بے شمار
اِتراؤں کس لئے نہ میں اپنے نصیب پر
وہ شاہ مہربان ہے مجھ سے غریب پر
معلیٰ
 
			حاجت اِدھر ہے ایک تو بخشش اُدھر ہزار
تارِ نَفَس اِدھر ، اُدھر الطاف کی قطار
بے حد مری خطائیں ، کرم اس کے بے شمار
اِتراؤں کس لئے نہ میں اپنے نصیب پر
وہ شاہ مہربان ہے مجھ سے غریب پر