اس کی تصویر جلانی پڑی ہے

رات آنکھوں میں بتانی پڑی ہے

میں ہی افسانہ نہ ہو جاؤں کہیں

میرے سینے پہ کہانی پڑی ہے

ایسی حسرت کا بھلا کیا کیجے

شمع امید بجھانی پڑی ہے

ایک کاغذ کو جلانا پڑا ہے

ایک تحریر مٹانی پڑی ہے

خاک میں خود کو ملایا میں نے

خاک صحرا میں اڑانی پڑی ہے

میں اسے بھول نہیں سکتا زبیرؔ

میز پر یاد دہانی پڑی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]