اس لیے عشق کے احسان سے ڈر لگتا ہے
اب کسی خواب کے اعلان سے ڈرلگتا ہے
لطف وہ لذتِ ہجراں میں ملا ہے مجھ کو
اب ترے وصل کے امکان سے ڈر لگتا ہے
یہ جمع پونجی کمائی ہے مری چاہت کی
اس لئے بھی مجھے نقصان سے ڈر لگتا ہے
کوزہ گر میں ہوں ترے چاک سے اترا ہوا وقت
جس کو تشہیر سے ، پہچان سے ڈر لگتا ہے
دل ،یہ پہلے بھی مری جان کو آیا ہوا ہے
ہاں مجھے اب اسی نادان سے ڈر لگتا ہے