میں وہ قصہ گو ہوں
جو بازار کے چوک میں
بیس پچیس لوگوں کی ساری توجہ کا مرکز بنا ہے
وہ جو اپنی داڑھی کی چاندی کو
اک ہاتھ کی انگلیوں سے کھجاتا ہے اور پھر
کسی ایک سامع کے چہرے پہ نظریں جما کر
یہ کہتا ہے ، ” تو ائے عزیزو
وہ بنتِ وزیرِ عرب سوچتی ہے کہ اب روز میں
کوئی دلچسپ قصہ ، بہانے بہانے سے
شاہِ عرب کو سنایا کروں گی
وہ شاہِ عرب جو کہ اب میرا شوہر ہے
مثلِ گزشتہ ، اپنی ہزیمت کا ہر ایک بدلہ
کسی صنفِ نازک کی سانسوں سے لے گا
وہ اک رات کی زندگی تو گزارے گی ملکہ کی صورت
مگر صبح سورج کی پہلی کرن میں
وہ اک بدنما شکل و صورت کے جلاد کے
دستِ قاتل میں اک جگمگاتے کلہاڑے کے قدموں میں
سجدہ کرے گی،
سو اب میں کلہاڑے سے بچ پاؤں گی
تو یہی میرے قصے بچائیں گے مجھ کو
وہ بنتِ وزیرِ عرب اپنی چھوٹی بہن کے بہانے
اسی بادشہ کو نیا روز قصہ سنانے لگی تھی
کبھی کوئی کوہِ ندا کا فسانہ
کہیں اک سمندر میں ٹوٹی ہوئی ، ڈوبتی کشتیوں سے
الجھتے ہوئے اک جہازی کی باتیں
کہیں دیو ، ہریاں ، کہیں محل ، قلعے
کبھی شاہزادی کا اک شاہزادے کو جادو کے باعث
کسی دیو کی خون آشامیوں سے بچانے کو
مکھی بنانے کا قصہ
کہیں تذکرہ وحشیوں کے قبائل کا
جو کہ کلیجے چبانے لگے تھے
یونہی وہ بے چارہ ، مصیبت کی ماری
ہر اک رات قصہ سنایا کرے گی
یہاں تک ہوری ہزار ایک راتیں یونہی کاٹ دے گی
مگر قہر یہ ہے
ہزار ایک راتوں پہ پھیلی ہوئی اس مکمل کہانی میں
ہر ایک سامع کی ہمدردیاں تو
وہ بنتِ وزیرِ عرب جیت لے گی
یہی بیس پچیس سامع کہیں پر یہ خواہش کریں گے
کہ اگلے ہی لمحے ، مرا کوئی ہیرو
نئے دیس پہنچے تو فاتح ہی ٹھہرے
جہازی سمندر میں مر ہی نہ جائے
کسی بھی وسیلے سے وہ پار اترے
مرے ہی تخیل کے مرہونِ منت
مرے یہ تراشے یہ کردار
ہر ایک سامع کو مدت تلک یاد ہوں گے
سبھی کے دلوں کے محبت کے جذبے
یہ کردار حاصل کریں گے
مگرمیں؟
میں پچھلے پہراپنی کٹیا میں سردی کےڈر سے
پرانے دریدہ شدہ چیتھڑوں میں سمٹ کر
یہ سوچوں گا کل کون سے بادشہ کے فسانے تراشوں
میں جب یخ ٹھٹھرتی ہواؤں کے باعث نہیں سو سکوں گا
تو پھر دوسری شب
میں سوئے ہوئے محل کی شاہزادی کے قصے کہوں گا
میں وہ قصہ گو ہوں