امکانِ حرف و صوت کو حیرت میں باندھ کر

لایا ہُوں خامشی تری مدحت میں باندھ کر

اے قاسمِ خیالِ مرصّع ! قبول ہو

اِک بے ہُنر کلام عقیدت میں باندھ کر

اب تیری چشمِ خیر و شفاعت کی دیر ہے

رکھی ہیں لغزشیں تری نسبت میں باندھ کر

لکھتا ہُوں نعتِ نور کو طلعت سے متّصل

رکھتا ہُوں اسمِ رنگ کو نکہت میں باندھ کر

مجھ کو بھی اپنے ساتھ مدینے میں لے کے چل

اے جذبِ بیکراں مری حسرت میں باندھ کر

اوجِ غزل خجل تری قامت کے روبرو

کیسے ثنا ہو شعر کی وسعت میں باندھ کر

ایمان بے نمود ہے عرفان کے بغیر

طاعت کو سینچتا ہُوں محبت میں باندھ کر

آیا ہوا ہے تیرے مدینے میں اک غریب

شوق و نیاز و عجز کو غُربت میں باندھ کر

مقصودؔؔ اُن کے اِسمِ گرامی کی طلعتیں

لایا ہُوں اپنے ساتھ مَیںنُدرت میں باندھ کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]